سناہے بلوچستان کی طرح اب سرائیکی وسیب میں بھی وہی مکروہ دھندہ شروع ہے جو بلوچستان کی عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ۔ ایران سے آئے وہ تمام زائرین جو یقینا کرونا وائرس کا شکار ہین کے لئے آئسولیشن کیمپس اسلام آباد لاہور راولپنڈی کی بجائے سرائیکی وسیب کے پسماندہ ترین علاقے بہاولپور راجن پور ڈی جی خان میں بنائے جا رہے ہیں ۔۔۔
اور مشکوک افراد کو وہاں منتقل کیا جارہاہے ؟ سوال یہ ہے کہ نام نہاد پنجاب ہے تو پنجاب میں سر ئیکیوں کے ساتھ یہ سلوک کیوں ؟ جب سرائکیوں کو انُکے اپنے علاقے میں کوئی بھی حادثہ ہو تو بنیادی سہولت نئیں ٹریفک حادثے ہوتے ہیں ہم لاشیںُ اٹھاتے ہیں لاہور اسلام آباد پنڈی اپنے مریض علاج کے لئے لے جاتے ہیں مگر آج جب وبائی مرض کا بین الاقوامی و قومی مسلئہ ہے تو اس کےُلئے اپر اور سنٹرل پنجاب کے پنجابی اشرف المخلوق برہمن ٹہرے کہ کہیں کرونا وائرس کی وبا پنڈی اسلام آباد لاہور والوں کو نہ لگ جائے اور اگر سرائکی شودروں کو لگ جائے تو خیر ہے یہ الگ بات ہے کہ حالیہ تین لاکھ افراد کاتبلیغی راۓونڈ اجتماع کا ہر ایک جنتی طوطا کسی خودکش بمبار سے کم نہیں ثابت ہوگا۔۔۔۔
بلوچستان کے بارے میں بھی بلکل یہی نقطہ نظر ہے کہہ مریں تو مریں ہماری بلا سے مگر وہاں کی مائیں کرونا سے نہیں ڈرتیں کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ کرونا وائرس سے مرجانے سے زیادہ ازیت اور درد اپنے پیاروں کا لاپتہ ہونے پر ہوتا ہے۔۔۔
یعنی سوچنے کی بات ہے کہ ایرانی متاثرہ زائرین کو لیکر ہوائی جہاز سیدھا ڈی جی خان یا بہاولپور کے ہوائی اڈے پر اترے گا ؟ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طلبا ہاسٹل اس مقصد کے لئے خالی کرائے جا رہے ہیں جہاں اس وباء کے مریضوں کو رکھا جائے گا ۔۔۔۔۔ نوجوان نئی نسل جو قوم کا مستقبل ہیں چولستان اور پسماندہ علاقوں سے آۓ طلباء جن میں سے اکثریت سرائیکی علاقوں سے ہے وہ قربانی کا بکرا بنیں ؟
انہیں جہادی مدرسوں میں کیوں نئیں رکھا جاتا جو فوج کی نگراج میں ہیں ؟ انہیں فوجی ہسپتالوں اور بیرکوں میں کیوں نئیں رکھا جاسکتا جنہوں نے ملک اور قوم کی خاطر اپنی جان کی قربانی کا حلف اورتنخواہ لی ہے جبکہ پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر ہینڈ سینیٹازر تیار کرنےاور ملک میں سپلائی کرنے کا ٹھیکہ فوج کے ادارے نے اٹھایا ہے اور اسی فوجی ادارے کی اپنی حکومت کے ہی وزیر پر ماسکس کی کروڑوں کی رقم ہضم کرنے کا مقدمہ چل رہا ہے۔۔۔۔
آج پوری دنیا اس کرونا وائرس سے جنگ کر رہی ہےجس میں تمام ممالک کی افواج نے کورنٹائن کے لئے فوجی چھاؤنیاں استعمال کر رہے ہیں عوام کو فوج اس وبا سے بچانے کے لئے اپنی چھاؤنیوں میں دن رات جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ یہاں سرائیکی وسیب جسے درجہ ششم کے پاکستانی شہری سمجھا جاتا ہے ان کے پسماندہ علاقوں میں مہلک وبائی مرض کے مریض رکھے جارہے ہیں۔۔۔۔۔
مگر کیوں نہ یہ وانجھ ہو جب یہاں کے عوام سیاسی بانجھ پن کا شکار ہوں۔ جنوبی بنجاب اور سرائیکی صوبے کا فرق ہی نہ سمجھ پائیں شور مچانے والےمقامی عوام ہیں جی سئیں ہا سئیں حکم سئیں اور چھوٹے چھوٹے زاتی مفادات پر قومی مفاد کی بولی لگائیں تو ان کی نسل کشی ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا اہل اقتدار اس خطے کو اپنی کالونی سمجھتے ہیں مفتوحہ قوموں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے جب تک سرائیکی قوم بحثیت پانچویں اکائی کادرجہ اور اس کے مطابق قومی نام سے سرائیکی صوبہ نہیں لیتی یہاں کی عوام شودرائیکی کہلائیں گے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر