نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سلطنت شریفیہ کو ناقابل تسخیر بنانے کا پروجیکٹ۔۔۔ عامر حسینی

اسٹبلشمنٹ سے پیسے اور مراعات لینے والے تو ہر دور میں موجود رہے لیکن یہ کیا کہ ایک جعل ساز کو ہماری جمہوری سیاست کی درخشاں روایت کا امام بناکر پیش کردیا گیا؟

پاکستان میں جیتنے والے گھوڑوں کی خرید و فروخت کا کلچر ویسے تو بہت پرانا ہے لیکن 1988ء میں چھانگا مانگا ریسٹ ہاؤس میں اس خرید و فروخت کا سب سے مہنگا اور سب سے بڑا میلہ نواز شریف خاندان نے لگایا تھا- نواز شریف کے بعد شہباز شریف نے پنجاب میں جیتنے والے گھوڑوں کو اپنی پارٹی میں ہر صورت رکھ کر حکومت کرنے کی روایت کو 2008ء میں زرداری/پی پی پی کی قربانی کے باوجود جاری رکھا اور پیپلزپارٹی میں رہ جانے والے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو ان کے حلقوں میں پٹوار خانوں اور تھانوں میں اتنا ذلیل کروایا کہ ان کی چیخیں نکل گئیں تھیں اور ان کو مجبور ہوکر یا تو پی ٹی آئی میں پناہ لینی پڑی یا پھر شہباز شریف کی نوکری کرنا پڑی-

نواز شریف یہ نوکری پورے جی ایچ کیو سے بھی کروانا چاہتا تھا اور وہ سمجھتا تھاکہ وہ اپنی بادشاہت کو اس طرح سے ہر خطرے سے محفوظ کرلے گا لیکن اسٹبلشمنٹ کے اندر اپنی بنائی اسٹبلشمنٹ ابھی ناپختہ اور کمزور تھی جسے اسٹبلشمنٹ نے اپنے اندر نواز شریف کے غلاموں کو نکال باہر کرکے ناکام بنادیا- نواز شریف کی جنگ پارلیمنٹ، آئین، جمہوریت کی بالادستی کی جنگ نہیں تھی –

یہ بات شہباز شریف کو کل بھی اچھے سے پتا تھی اور آج بھی پتا ہے یہی وجہ ہے وہ بار بار اسٹبلشمنٹ کے اندر اپنے اصل سامان کو بچانے کے لیے مخالفت پر اتر آنے والے اسٹبلشمنٹ کے گاڈ فادرز کے ساتھ صلح کرکے اور تھلے لگ جانے کی طرف راضی تھا اور راضی ہے، بس نواز شریف سو پیاز کے سو جوتے کھاکر مانے ہیں- باقی پاکستان کے صحافیوں، اینکرز، تجزیہ نگاروں، کالم نگاروں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کی ایک زرخرید فوج ظفر موج نے ‘جمہوریت پسند،اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست’ کی لغت کے سارے الفاظ ‘سلطنت شریفیہ’ کو ناقابل تسخیر بنانے کی کوششوں کو ‘جمہوریت اور آئین کی بالادستی’کی کوششیں بنانے میں خرچ کرڈالے-

انہوں نے تو اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست سے اس کا ناز، بانکپن اور غرور ہی چھین لیا جب انھوں نے نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو اور مریم نواز کو بے نظیر کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کی-

ہمارے چی گیوارا ، پابلو نرودا کی بے عزتی کی گئی جب رزیلوں کو ان القاب سے نوازا گیا-

اسٹبلشمنٹ سے پیسے اور مراعات لینے والے تو ہر دور میں موجود رہے لیکن یہ کیا کہ ایک جعل ساز کو ہماری جمہوری سیاست کی درخشاں روایت کا امام بناکر پیش کردیا گیا؟

اس فوج ظفر موج کا یہ کمرشل ازم ہمیشہ ایک کلنک کے ٹیکے کی طرح ان کے ماتھے پر سجا رہے گا- جب جب حمید ہارون(مبینہ ریپسٹ)، میر شکیل الرحمان، مجیب الرحمان شامی ، امتیاز عالم ، نجم سیٹھی،ظفر عباس، طلعت حسین،،،،،،،، اور درجنوں نام لیے جائیں گے تو یہ کمرشل ازم کا کلنک کا ٹیکہ ان کی شکلوں کے یاد آنے کے ساتھ ساتھ ان کے ماتھے پر نظر آئے گا –

About The Author