نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بے حس ڈاکٹر کی کہانی ۔۔۔ رؤف کلاسرا

اسی کارڈیالوجسٹ کو بتایا جاتا کہ فلاں وزیر یا بڑے آدمی کو فوراً سٹنٹ ڈالنا ہے‘ اس نے دوڑے آنا تھا۔ پورا ہسپتال الرٹ ہوتا۔
امریکہ کی ریاست ڈیلاوئیر کے شہر لیوس میں رات سوا بارہ بجے ڈاکٹر احتشام قریشی کے گھر نیوجرسی سے آئے دوست المان چوہدری کے ساتھ گپیں مار رہے تھے۔
اسلام آباد میں مقیم میرے بہاولپور‘ چشتیاں سے تعلق رکھنے والے فیملی فرینڈ صاحبزادہ محمد حسن کے چھوٹے بیٹے وجدان حسن کا میسج تھا کہ آپ کسی Cardiologist کو جانتے ہیں؟اس وقت اسلام آباد میں صبح کے سوا دس بجے تھے۔میں نے کہا: ایک کارڈیالوجسٹ تو میرے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر احتشام خود یہاں بہت بڑے ہارٹ سپیشلسٹ ہیں۔
وہ بولا: بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ہم انہیں ایف ٹین مرکز میں ایک مشہور و معروف ہسپتال لے آئے ہیں۔ گھنٹے سے اوپر ہوگیا ہے اور بابا کی حالت بگڑ رہی ہے۔میں نے جلدی سوچنا شروع کیا‘ اسلام آباد میں اس وقت کہاں سے کارڈیالوجسٹ مل سکتا ہے؟ میں نے پوچھا: ہسپتال کا کال آن ڈیوٹی کارڈیالوجسٹ نہیں ہے؟ بتایا ڈاکٹر کو کال کی گئی تھی‘ لیکن گھنٹے سے زائد گزر گیا ہے کوئی اتا پتا نہیں ہے۔میں نے فوراً اسلام آباد میں اپنے دوست ڈاکٹر احمد سہیل کا نمبر ملایا‘ ایسی مشکل میں کام آتے ہیں‘ لیکن ان سے بات نہ ہوسکی۔ اتنی دیر میں وجدان نے واٹس ایپ پر اپنے باپ کے ٹیسٹ اور رپورٹس بھیجیں جو ڈاکٹر احتشام نے دیکھیں تو ان کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات ابھرے۔
بولے: صاحبزادہ صاحب کو اس وقت ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ ان کے پاس بالکل وقت نہیں‘ فوری طور پر اینجیو گرافی کی ضرورت ہے۔ انہیں فورا ًسٹنٹ ڈالناچاہیے۔ ڈاکٹر احتشام نے میری پریشانی دیکھی تو مجھ سے فون لیا اور وجدان کو کہا: میری ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سے بات کرائو۔
احتشام نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ یہاں امریکہ میں کارڈیالوجسٹ ہیں۔ مریض کی حالت پوچھی‘ کچھ دیر سنتے رہے اور پھر ڈاکٹر احتشام نے اس جو نیئرڈیوٹی ڈاکٹر کو دو دوائیں بتائیں کہ فوراً انہیں دیں ‘یہ لائف سیونگ ڈرگز ہیں۔ وہ ڈاکٹر بولاکہ اپنے کارڈیالوجسٹ کی مرضی کے بغیر یہ دوائیاں مریض کو نہیں دے سکتا۔ احتشام نے کہا: بھائی یہ میرا تعارف ہے میں بیس پچیس سال سے امریکہ میں کارڈیالوجسٹ ہوں۔ اس وقت آپ کے مریض کو ان دو دوائیوں کی ضرورت ہے‘ان کی جان خطرے میں ہے۔ نوجوان ڈاکٹر بولا: وہ یہ کام نہیں کرسکتا‘کارڈیالوجسٹ آئے گا تو ہوسکے گا اور کارڈیالوجسٹ کا کہیں پتہ نہیں تھا اور ایک انسان زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا جبکہ بیوی‘ بیٹی اور بیٹے کی جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔
فون بند ہوا تو ڈاکٹر احتشام میری طرف دیکھ کر بولے :آپ کے دوست کے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمیں انہوں نے ہارٹ اٹیک کے ایک گھنٹے بعد فون کیا ہے اور ابھی تک کارڈیالوجسٹ کا کہیں پتہ نہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں رسپانس ٹائم صرف آدھا گھنٹہ ہوتا ہے۔ وہ بولے :اگر میرے کلینک میں ہارٹ اٹیک کا مریض آتا تو میں نے آدھے گھنٹے کے اندر کلینک پہنچنا تھا۔ میں اب تک اس کو سٹنٹ ڈال چکا ہوتا۔ سٹنٹ تو اب معمولی سا پروسیجر ہے۔ احتشام کہنے لگے: مجھے تو اب یاد بھی نہیں کہ اس کا ہارٹ کا کوئی مریض کب فوت ہوا تھا۔
اتنی دیر میں وجدان کا باپ کی بگڑتی حالت دیکھ کر فون آیا‘ کچھ کریں پلیز۔ وہ بولا: ہسپتال والے کہہ رہے ہیں کہ انہیں سی سی یو شفٹ کر دیتے ہیں۔ احتشام بولا انہیں اس وقت کارڈیالوجسٹ کی ضرورت ہے ‘جو فوراً سٹنٹ ڈالے۔
اس دوران ڈیڑھ گھنٹہ ہوچکا تھا۔ اس سے پہلے ڈاکٹر احتشام امریکہ میں اپنے کارڈیالوجسٹس کے ای امیل گروپ میں میل ڈال چکا تھا کہ کوئی اسلام آباد میں کسی کارڈیالوجسٹ کو جانتا ہے‘ایمرجنسی ہے۔ میری پریشانی دیکھ کر المان بھائی نے کسی کو فون ملایا کہ شاید وہ بتا سکے‘ اسلام آباد میں کوئی کارڈیالوجسٹ کہاں ہوگا؟ اس بندے نے ایف ٹین میں اس مشہور و معروف ہسپتال کا نام سن کر کہا: وہ تو موت کا ٹریپ بن چکا ہے۔
وہاں سے کم ہی ہارٹ اٹیک کے مریض زندہ واپس جاتے ہیں۔ اب مجھے کچھ سمجھ آنے لگی کہ بے چارے فصیح کے بچے بھی اس طرح رات گئے کارڈیالوجسٹ ڈھونڈ رہے ہوں گے‘ جیسے اب وجدان اور اس کی بہن ڈھونڈ رہے تھے کہ باپ کی جان بچائی جا سکے۔ میںنے وجدان کو کہا: ہسپتال سے اس کارڈیالوجسٹ کا نمبر لے کر مجھے دیں‘ میں اسے کال کرتا ہوں۔ ہسپتال نے کہا :وہ نمبر نہیں دے سکتے۔
ایک بیٹے کا دکھ محسوس کر کے میں نے اسلام آباد ارشاد بھٹی کو فون کیا کہ اس کے بہت ڈاکٹرز جاننے والے ہیں۔ بھٹی نے فون نہ اٹھایا۔ میرے ذہن میں فلیش ہوا کہ جنرل اظہر کیانی کو فون کروں۔ وہ پاکستان میں دل کے بڑے ڈاکٹر ہیں اور اچھے انسان ہیں۔ میں نے جنرل کیانی کو کال کی۔ فون اٹینڈ نہ ہوا۔ ڈاکٹر احتشام نے میری طرف دیکھا اور بولا: تقدیر کا مذاق دیکھیں میں خود کارڈیالوجسٹ ہوں‘ آپ کے دوست کے بچے اس وقت پورے اسلام آباد میں کارڈیالوجسٹ ڈھونڈ رہے ہیں اور ہسپتال کے کارڈیالوجسٹ کو دو گھنٹے پہلے کال کی گئی تھی اور اس نے کہا تھا وہ آرہا ہے اور دو گھنٹے گزر گئے ‘اس کا کوئی اتا پتا نہیں ۔
احتشام بولا: اسے شفٹ کرائیں۔ کم وقت رہ گیا ہے‘ ڈیڑھ گھنٹے سے ہم کوشش کررہے ہیں‘ اب تک دل کو بہت نقصان پہنچ چکا ہوگا۔ احتشام نے مجھے دیکھ کر کہا: اب چانسز ختم ہیں۔ وجدان کا میسج آیا: بابا کو آکسیجن پر شفٹ کر دیا گیا ہے۔ اتنی دیر میں جنرل کیانی نے کال بیک کی‘میں نے شکرادا کیا‘انہیں پوری بات بتائی‘انہوں نے کہا: فوراً راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی شفٹ کریں‘ میں ایمرجنسی میں ڈاکٹر کامران کو الرٹ کر رہا ہوں۔میں نے وجدان کو کہا: فوراً ایمبولینس لو اور پنڈی کی طرف نکلو۔ ایمولینس موجود نہ تھی‘ جب ایمبولینس آئی امریکہ میں رات کے تین بج چکے تھے۔ پنڈی پہنچے تو فوراً ایمرجنسی لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر کامران موجود تھے اور کوشش کی گئی‘ لیکن ایمبولینس میں ان کی طبیعت مزید بگڑ چکی تھی۔ چار بجے وجدان کا میسج آیا: بابا فوت ہوگئے ہیں۔
چارگھنٹوں کے بعد جب کارڈیالوجسٹ ملا تو مہلت ختم ہوچکی تھی۔اس ایف ٹین کے مشہور ہسپتال کے جس کارڈیالوجسٹ کو کال کی گئی تھی اور وہ دو گھنٹے تک ہسپتال نہیں پہنچا‘ اسے شاید اندازہ نہیں ہوگا کہ اس کی اس سُستی یا carefree رویے کی اس خاندان نے کتنی بھاری قیمت چکائی ہے۔ ڈاکٹراحتشام نے مجھے کہا:یہ سب نااہلی اور غفلت ہے ۔اگر دو گھنٹے تک یہاں امریکہ میں ڈاکٹر کال پر نہ آتا تو نہ صرف ہسپتال بند ہوتا بلکہ ڈاکٹر کا لائسنس بھی کینسل ہوتا۔ اس کارڈیالوجسٹ کے نزدیک پاکستان میں روزانہ لوگ مرتے ہیں‘ ایک اور مرگیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔
سب تقدیر کہہ کر چپ ہو جائیں گے۔ اس کارڈیالوجسٹ کو کبھی اندازہ نہیں ہوگا کہ صاحبزادہ حسن کے دو بیٹوں‘ایک بیٹی‘ بیوہ اور ہمارے جیسے ان کے دوستوں پر کیا قیامت گزر گئی ہے۔ اندازہ کریں دو بچے باپ کو ہسپتال لائے کہ شہر کا بڑا مہنگا اورجدید ہسپتال ہے اور دو اڑھائی گھنٹے تک کارڈیالوجسٹ کال کے باوجود نہیں آتا اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ زندگی موت اللہ کے ہاتھ ہے‘ لیکن جان بچانے کی کوشش کا حکم تو خدا بھی دیتا ہے۔ اگر کسی ڈاکٹر کے نزدیک ایک مریض کا جسم صرف پیسہ بنانے کی مشین ہے تو پھر اس کارڈیالوجسٹ نے ٹھیک کیا۔ اگر اس نے یہ پیشہ پیسہ کمانے کے لیے اختیار کیا تھا نہ کہ دکھی انسانوں اور خاندانوں کو سکون اور آرام پہنچانے کے لیے تو پھر اس نے ٹھیک کیا اور کال کے باوجود گھر بیٹھا رہا اور ایک خاندان اپنے باپ کو کھو بیٹھا۔
اسی کارڈیالوجسٹ کو بتایا جاتا کہ فلاں وزیر یا بڑے آدمی کو فوراً سٹنٹ ڈالنا ہے‘ اس نے دوڑے آنا تھا۔ پورا ہسپتال الرٹ ہوتا۔ یہاں ایک بیٹا اوربیٹی ہسپتال میں روتے رہے‘ منتیں کرتے رہے کسی کا دل نہ پسیجا۔ کتنا بڑا بھروسہ ہے کہ شاید ڈاکٹر زندگی کی طرف لے آئے۔ کیا ایسے ہسپتال کو چلتے رہنے دینا چاہیے جس کا ڈاکٹر دو گھنٹے تک کال کے باوجود نہ پہنچے اور مریض کو وہاں سے پنڈی شفٹ کرنا پڑے اور وہ وہاں دم توڑ جائے؟وہ کارڈیالوجسٹ تھوڑا احساس‘ تھوڑاخیال اور ان منت ترلے کرتے بچوں کو اپنے بچوں کی جگہ رکھ کر سوچتا تو ایک زندگی بچ سکتی تھی۔ بچوں کا باپ بچ سکتا تھا۔ ہمارا بہاولپوری دوست بچ سکتا تھا۔
کیا فائدہ طبیب بننے کا اگر آپ میں احساس نہیں ‘ ہمدردی نہیں‘ انسانیت نہیں۔

About The Author