دنیا کا کوئی بھی شخص اس بات سے انکاری نہیں ہوسکتا کہ عورتیں تمام معاشروں کی بنیادی اکائی ہیں اور کوئی بھی معاشرہ عورتوں کو ان کا مقام اور حقوق دئیے بغیر صحیح معنوں میں ترقی نہی کرسکتا۔آج کے دور میں عورت کا معاشرے کی ترقی میں کردار ماضی کے ادوار کی نسبت زیادہ اہم ہوگیا ہے۔کیونکہ آج کی عورت کامختلف انواع کی ملازمت کرنے کا رجحان زیادہ ہوگیا ہے۔اس سے جہاں ایک طرف عورت معاشرتی اور معاشی لحاظ سے اپنے خاندان کی مدد کرتی ہے وہیں وہ
ملکی معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کرنے میں اپنا حصہ شامل کررہی ہوتی ہے۔پاکستان میں ایک طرف جہاں خواتین کو ملازمت کرنے اور اس شعبہ میں زیادہ تعداد میں آنے کا رجحان بڑ ھ رہا ہے وہیں ان کیلئے مشکلا ت جن میں ٹرانسپورٹ،مخلوط ماحول، جنسی ہراسگی اور ذہنی و جسمانی تشدد جیسی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔حکومتی سطح پر انکی جائے ملازمت پر محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے مختلف قوانین اور معاشرہ کی ستائی خواتین کی حفاظت کیلئے
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز کی سطح پر دارالامان اور تشدد سے پاک حفاظتی مراکز قائم کئے گئے ہیں۔
پاکستانی سماج تضادات کا مجموعہ ہے جہاں قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے میں بھی کافی مشکلات حائل ہیں۔
ریاست کی طرف سے لوگوں کی سہولت کیلئے قوانین بنائے تو جاتے ہیں مگر شومئی قسمت جب عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو بااثر طبقات یا شخصیات رکاوٹ بن جاتے ہیں۔یا پھر کسی نہ کسی وجہ سے عدم دلچسپی کے باعث ان قوانین پر عمل نہیں ہوپاتا۔
حکومت پنجاب کی جانب سے جہاں خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ خواتین کے تحفظ کیلئے ہمہ وقت مصروف عمل ہے اسی طرح صوبائی خاتون محتسب پنجاب کا ادارہ خواتین کیلئے الگ کام کررہا ہے۔ جبکہ جائے ملازمت پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کا ایکٹ 2010ء
(ترمیم شدہ 2012ء)بھی نافذہے۔ اس قانون کے تحت صوبہ پنجاب میں واقع تمام سرکاری،نیم سرکاری،رجسٹرڈ، غیر سرکاری و نجی اداروں، ہسپتالوں، کالجز، یونیورسٹیوں اور فیکٹریوں میں انکوائریاں کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں جس میں ایک خاتون ممبر کی شمولیت لازم ہے اور اس ضمن میں مجاز اتھارٹی کا تقرر کرکے ضابطہ اخلاق کو تمام اداروں میں انگریزی اور اُردو میں نمایاں جگہوں پر آویزاں کرنے کا پابند بنادیا گیا ہے اگر کوئی ادارہ مندرجہ بالا قواعدو شرائط کی تعمیل نہیں کرتا تو اس کے مطابق تحریر ی شکایت خاتون محتسب پنجاب کو ایکٹ کی دفعہ11کے تحت درج کرواکر ہر شہری اپنا قومی فریضہ ادا کرے تاکہ خواتین ملک کی ترقی میں بلاخوف و خطر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اسی طرح صوبہ پنجاب میں خواتین کو تشدد سے تحفظ کا قانون 2016ء منظور کیا گیا جس کے تحت اب کوئی عورت غیر محفوظ نہیں ہے۔اس قانون کے تحت فیملی کورٹ کو اختیار سماعت دیا گیا ہے۔جبکہ اسی قانون کے تحت تعینات ” خواتین تحفظاتی آفیسر ” متاثر خاتون کی شکایت متعلقہ کورٹ میں لیکر جائیں گی اور فیملی کورٹ سے حاصل شدہ فیصلہ پر عملدرآمد بھی کروائیں گی۔عدالت کیس کے حالات و واقعات کی روشنی میں گھر کے اندر ہی رہائش رکھنے کا حکم، عبوری حکم، تحفظاتی اقدامات کا حکم،مانیٹری یعنی جرمانہ و ہرجانہ کا حکم اور تشدد کرنے والے شخص کی کلائی یا پاؤں کے ٹخنہ پر” جی پی ایس ٹریکر "کا کڑا پہنانے کا حکم بھی جاری کرسکتی ہے تاکہ وہ متاثرہ خاتون سے گھر کے اندر فاصلے پر رہے اور کسی قسم کا تشدد نہ رہے۔
اسی طرح جب معاملات معمول پر آجائیں فریقین کے درمیان صلح،تصفیہ ہوجائے تو عدالت یہ بندش ختم کرنے کا حکم دیگی۔تشدد کرنے والے شخص کو عدالت کیس کی نوعیت کے مطابق پچاس ہزار روپے سے دو لاکھ روپے تک جرمانہ اور ایک سال قید یا دونوں سزائیں دے گی اگر مدعا علیہ دوبارہ تشددکرے اور عبوری حکم کی خلاف ورزی کرے تو عدالت مدعا علیہ کو دو سال تک قید جو کسی صورت ایک سال سے کم نہ ہوگی اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ جو کسی صورت ایک لاکھ روپے سے کم نہ ہوگادے گی۔ اسی طرح اس قانون میں کم عمری اور زبردستی کی شادی کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے بدل صلح،ونی جیسی منفی رسومات کے تحت لڑکی کی شادی کرنا یا قرآن پاک سے شادی کرنا بھی غیر قانونی ہے جس کی سزائیں سے سات سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ لینڈ ریونیو ایکٹ دفعہ135-A،142-Aکے تحت خواتین کا وراثت میں حصہ لازم بنانے کیلئے انتقال وراثت کے فوراً بعد جائیداد کی تقسیم لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
پنجاب میں خواتین کو تشدد سے تحفظ کے قانون کے تحت 25مارچ2017کو ملتان سٹی میں پہلا انسداد تشدد سنٹر قائم کیا گیا جس کے بعد دوسرا سنٹر لودھراں میں قائم کردیا گیا ہے جنہوں نے کام شروع کردیا ہے۔ان سنٹرز میں تشدد سے متاثرہ خاتون کو ایک ہی چھت کے تلے فوری علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ قانونی کاروائی کیلئے FIRکا اندراج، تفتیش کی کاروائی، مفت قانونی مدد،رہائش کی سہولتیں میسر ہوں گی۔یہ مراکز خواتین ہر ہونے والے گھریلو،ذہنی و جسمانی تشدد،کم عمری کی شادی اوردیگر درپیش مسائل کے حل کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔ان مراکز کو مزید موثر بنانے کیلئے ان میں خواتین آفیسران و اہلکاران کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ خواتین اپنے مسائل بلاجھجھک ان کے سامنے بیان کرسکیں۔ان مراکز کے قیام کا مقصد خواتین پر ہونے والے تشدد کو بروقت روکنا ہے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی تاخیر قبول نہیں کی جاتی۔ان مراکز میں تمام سہولتیں مثلاً مفت علاج معالجہ، قانونی چارہ جوئی اور ذہنی و جسمانی حالت کی بحالی میسر ہیں۔حکومت پنجاب ان مراکز کو ہر ضلعی ہیڈکوارٹر پر قائم کرنا چاہتی ہے جو کہ احسن اقدام ہے۔اس قانون کے تحت ضلع کی سطح پر ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن کمیٹیاں بھی قائم کی جائیں گی جس کے سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوں گے جبکہ
ای ڈی او ہیلتھ، ای ڈی او کمیونٹی ڈویلپمنٹ، نمائندہ ڈسٹرکٹ پولیس، ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفیئر، ڈسٹرکٹ پبلک پراسکیوٹر اور ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن آفیسر(بطور سیکرٹری ممبران ہوں گے)کمیٹی اس قانون کے تحت قائم پروٹیکشن سنٹر کی کارگزاری، شیلٹر ہوم، ٹال فری ہیلپ لائن و دیگر امور کی نگرانی کریگی اور خدمات میں بہتری لانے کیلئے ضروری اقدامات کریگی۔
موجودہ حکومت اس قانون پر نہایت سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کی کاوشیں کررہی ہے جسے کامیاب بنانا
سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ ہر شہری کا فرض ہے۔نیز حکومتی اراکین اسمبلی اور تمام سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس طرح کہ اقدامات کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ معاشرے کی نصف آبادی(خواتین) پر سکون اور مکمل محفوظ ماحول میں ملکی و قومی ترقی و استحکام میں اپنا موثر کردار ادا کرسکے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر