نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیم فول۔۔۔ ارشد وحید چوہدری کا مکمل کالم

عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے بعد جب ثاقب نثار کے بیرون ملک  شب و روز کی تصاویر سامنے آنے لگیں تو عوام کو باور ہو گیا کہ ڈیم کے نام پہ انہیں فول بنایا گیا ہے

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی شادی گزشتہ دنوں لاہور میں سرانجام پائی ، اس شادی  کا سوشل میڈیا پہ خوب چرچا رہا ، شادی کی وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ تقریب پہ کیسے شاہانہ اخراجات کئے گئے، لوگوں نے طنز و مزاح کا سہارا لے کر سابق چیف پہ خوب تنقید کی، بعض لوگوں نے اس نمود و نمائش کو فضول خرچی سے تعبیر کیا تو کچھ لوگوں نے سابق جج کی تنخواہ کا حوالہ دے کر کروڑوں روپے کے اخراجات کو ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھنے کے طعنے دئیے،

سیاست دانوں سے ہمدردی رکھنے والوں نے تو اسے ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس قرار دیتے ہوئے نیب سے تحقیقات کرانے کا بھی مطالبہ کیا جبکہ بعض افردا نے اپنے دور منصف میں دوسروں سے منی ٹریل مانگنے والے سابق چیف سے ان اخراجات کی منی ٹریل فراہم کرنے کا بھی کہا۔ ایک چیز جو اس تنقید میں مشترک تھی وہ ڈیم فنڈ کا ذکر تھا،

سوشل میڈیا سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی شادی پہ پہ کئے گئے ہر تبصرے میں دل جلوں نے ڈیم فنڈ کے لیے پیسے اکھٹے کرنے کی مہم کو اس پر تعیش تقریب سے جوڑتے ہوئے خوب دل کے پھپھولے پھوڑے ، کوئی چیف صاحب سے ڈیم فنڈ کے پیسوں کا حساب پوچھ رہا تھا تو کسی نے ان کے بہو اور بیٹے کے ملبوسات کی قیمت بارے استفسار کیا،

مسلم لیگ ن کے متوالوں کو تو زبردست موقع ہاتھ آگیا اور انہوں نے مریم نواز کے جوتوں اور کپڑوں کی قیمت پہ تنقید کرنے والوں سے دلہن کے جوڑے کی قیمت کا پوچھتے ہوئے خوب کوسنے دئیے۔ یہاں تک کہ کسی نے یہ کچی پکی اطلاع بھی فراہم کر دی کہ سابق چیف جسٹس کی بہو نے جو عروسی جوڑا زیب تن کیا تھا وہ بھارت کی معروف ڈریس ڈیزائنر انیتا ڈونگر نے ڈیزائن کیا تھا اوراس پہ ڈیڑھ کروڑ روپے لاگت آئی تھی۔

پاکستان میں اس سے قبل بھی متمول افراد کے ہاں شادیاں ہوتی رہی ہیں جن پہ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا لیکن کبھی کسی نے ایسے سوالات نہیں اٹھائے، سیاستدان ہو یا کوئی کارباری شخص،  وکیل ہو یا کوئی بیوروکریٹ ، جنرل ہو یا صحافی کبھی کسی کو اس طعن و تشنیع کا سامنا نہیں کرنا پڑا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے سوالات سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے ہی کیوں کیے جا رہے ہیں ۔

ان کی ذاتی زندگی سے جڑے اس فعل کو قابل احتساب کیوں گرادنا جا رہا ہے،ان کے ساتھ ان کے اہلخانہ سے بھی کیوں باز پرس کی جا رہی ہے اور خالصتا نجی زندگی پہ اتنی سخت تنقید کیوں کی جا رہی ہے ۔ اس کی وجوہات میں یقینا دو عنصر بہت اہم ہیں ،ایک یہ کہ ثاقب نثار پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس رہے ہیں اور دوسرا انہوں نے  ملک میں پانی کی کمی سے ہنگامی بنیادوں پہ نمٹنے کے لیے فوری طور پہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم  کی تعمیر شروع کرنے کے لیے فنڈ اکھٹا کرنے کی مہم کا اجراء کیا تھا۔

اب بطور چیف جسٹس جب وہ منصف کی کرسی پہ براجمان تھے تو ان کے سامنے ایک عام فرد سے لے کر وزیراعظم تک سب کے مقدمات سماعت کے لیے آتے تھے ،اس دوران بطور جج انہوں نے اپنے منصب کے تقاضے کے مطابق لوگوں کو احتساب کی اس بھٹی سے گزارا کہ اس میں اس فرد کے ساتھ اس سے جڑے رشتوں جن میں گزشتہ نسلوں سے لے کر اس کی بیٹیوں تک کے ذرائع آمدن اور اثاثوں بارے بھی باز پرس کی جاتی رہی۔

مقدمات کی سماعت کے دوران  وہ ملزمان سے منی ٹریل کا تقاضا کرتے، منی ٹریل نہ دینے کی پاداش میں وزارت عظمی کے منصب سے ہٹائے جانے والے نواز شریف کو انہوں نے ہی پارٹی سربراہ کے عہدے کے لیے بھی نا اہل قرار دیا تھا ، اگر کسی  ملزم کا رہن سہن اس کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا تھا تو ثاقب نثار کی عدالت میں اسے اس عدم توازن کو ثابت کئے بغیر چھٹکارا نہیں ملتا تھا ،بطور منصف وہ تقریبات سے خطاب کے دوران  لوگوں پہ زور دیتے رہے کہ ملک کا مستقبل تب ہی روشن اور محفوظ ہو سکتا ہے اگر  قانون سب کے لیے یکساں ہو جبکہ وہ اسراف پہ سخت تنقید کرتے ہوئے سادہ زندگی بسر کرنے کے وعظ کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ لوگوں کے منرل واٹر پینے پہ بھی تنقید کیا کرتے تھے۔

اب انہی سے جڑے دوسرے پہلو یعنی ڈیم فنڈ کا ذکر کیا جائے تو  بطور چیف جسٹس انہوں نے سال 2018 میں کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران  وفاقی حکومت ککو ملک میں فوری طور پہ دو ڈیمز کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا تھا ، ان میں دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم شامل تھا۔

ان ڈیمز کی تعمیر کے لیے انہوں نے  جولائی 2018 میں سپریم کورٹ ڈیم فنڈ کے  قیام کا اعلان کیا اوراپنی طرف سے دس لاکھ روپے کا ابتدائی فنڈ دیتے ہوئے عوام  پہ زور دیا کہ وہ اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیں، وہ بطور چیف جسٹس فنڈ ریزنگ کے لیے بیرون ملک بھی جاتے رہے، اگرچہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی لاگت تقریبا 1450 ارب روپے اور مہمند ڈیم کی لاگت 310 ارب روپے  تھی لیکن وہ بہت پر عزم تھے کہ نہ صرف پاکستانی قوم ان ڈیمز کی تعمیر کے لیے 1965 کے جذبے کی طرح اپنا سب کچھ نچھاور کر دے گی بلکہ بیرون ملک مقیم  پاکستانی بھی دو سو ارب ڈالر بھیجیں گے، انہیں اس قدر خوش فہمی کی تھی کہ انہوں ںے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ 900 ارب روپے تو بس پاکستان پہنچے والے ہیں، ان کی ہدایات پہ عمل کرنے کرنے کے لیے آرمڈ فورسز سمیت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ڈیم فنڈ کے لیے ایک دن کی کٹوتی بھی کی گئی۔

وہ فنڈ اکھٹا کرنے کی مہم کے بارے میں اس قدر سنجیدہ تھے کہ جب وزیر اعظم عمران خان نے پرائم منسٹر فنڈ کے قیام کا اعلان کیا تو انہوں نے پرائم منسٹر کا نام سپریم کورٹ کے نام کے بعد شامل کرنے کی ہدایات دیں ،ان کی عدالت میں کوئی مالی لین دین کا مقدمہ آتا تو وہ جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کا حکم صادر فرماتے جبکہ ڈیم فنڈ پہ تنقیدکرنے والوں کو آرٹیکل سکس لگانے کا کہ کر ڈراتے  لیکن ان سب کاوشوں کے باوجود ڈیم فنڈ کی مد میں صرف 9 ارب 80 کروڑ روپے ہی جمع ہوسکے اور ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت آن پہنچا جبکہ اس کی تشہیر کے لیے میڈیا کو 13 ارب روپے کا ائر ٹائم دینا پڑا ۔

ڈیم کی تعمیر کا کریڈٹ لینے کے وہ اس قدر حساس تھے کہ حکومت نے مہمند ڈیم کی تعمیر کے سنگ بنیاد رکھنے کی تاریخ تبدیل کی تو وہ ناراض ہو گئے اور خوب باز پرس کی جس پہ وفاقی وزیر آبی وسائل کو معذرت کرنا پڑی۔ ڈیم فنڈ کے لیے پیسے دینے والی پاکستانی قوم کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور لٹریری فیسٹیول میں ایک سوال کے جواب میں ثاقب نثار نے فرمایا کہ فنڈ اکھٹا کرنے کا مقصد ڈیمز کی تعمیر نہیں بلکہ عوام میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔

عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے بعد جب ثاقب نثار کے بیرون ملک  شب و روز کی تصاویر سامنے آنے لگیں تو عوام کو باور ہو گیا کہ ڈیم کے نام پہ انہیں فول بنایا گیا ہے چناچہ اب جب ان کے بیٹے کی لاہور میں شان و شوکت سے کی جانے والی شادی کی ویڈیوز سامنے آئیں تو ان کے زخم ہرے ہو گئے ۔ عوام نے بیٹے کی شادی پہ شاہانہ اخراجات کرنے پہ سابق چیف جسٹس کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا کیونکہ ان کے لیے یہ محض ایک شادی کی تقریب نہیں بلکہ قول و فعل کا وہ تضاد تھا  جس کا پردہ چاک کرنا اب ضروری تھا، ویسے بھی ابراہم لنکن کا مشہور مقولہ ہے کہ آپ تمام لوگوں کو ایک بار بے وقوف بنا سکتے ہیں اور کچھ لوگوں کوہمیشہ بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف نہیں بنا سکتے

About The Author