پاکستان کا دورہ کرنے والے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ آئندہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تعلیمی نصاب کو بدلنا اور اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں معیاری یا جدید تعلیم تو دور کی بات یہاں تو تعلیم کے بنیادی حق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہی ایک چیلنج ہے۔
آئین کا آرٹیکل 25الف ریاست کو پابند بناتا ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی لیکن جہاں آئے روز انسان کے جان و مال کے تحفظ سے لے کر آزادیٔ اظہار تک جیسے بنیادی آئینی حقوق کی پامالی کی جاتی ہو وہاں لازمی تعلیم کی فراہمی جیسی شق پہ عمل درآمد کی کیا اہمیت ہو گی۔
اینوئل اسٹیٹ آف ایجوکیشن رپورٹ (اے ایس ای آر) کے مطابق پاکستان میں چھ سے سولہ سال کی عمر کے 83فیصد بچوں کا اسکولوں میں اندراج ہو چکا ہے اور سال 2016میں یہ شرح 81فیصد تھی۔
اس صورتحال کو اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ابھی بھی پانچ سے سولہ سال کی عمر کے 2کروڑ 28لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، انتہائی افسوس اور تشویش کا مقام یہ ہے کہ دنیا میں نائیجیریا کے بعد پاکستان ہی دوسرے نمبر پہ بدقسمت ملک ہے جہاں اتنی بڑی تعداد میں اسکول جانے کی عمر والے بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ میں درج مزید تفصیل پہ نظر ڈالی جائے تو پانچ سے نو سال کی عمر کے جو بچے اسکول نہیں جا رہے ان کی تعداد 50لاکھ ہے، دس سے چودہ سال کی عمر کے ایک کروڑ چار لاکھ بچوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی جبکہ 52فیصد غریب اور پسماندہ بچے جو اسکول نہیں جا رہے ان میں 58فیصد بچیاں ہیں، بلوچستان میں ایسی بچیوں کی تعداد 78فیصد ہے، یو این ڈی پی کے مطابق سال 18-2017میں پاکستان میں شرح خواندگی 62.3(باسٹھ اعشاریہ تین) فیصد تھی۔
خیبر پختونخوا میں شرح خواندگی سال 15-2014 کے مقابلے میں سال 18-2017 میں 54.1فیصد سے بڑھ کر 55.3فیصد ہو گئی، پنجاب میں 61.9فیصد سے بڑھ کر 64.7فیصد رکارڈ کی گئی، بلوچستان میں 54.3فیصد سے بڑھ کر 55فیصد ہو گئی تاہم سندھ وہ واحد صوبہ تھا جہاں شرح خواندگی میں اضافے کے بجائے کمی دیکھنے میں نظر آئی اور یہ شرح 63فیصد سے کم ہوکر 62.2فیصد ہو گئی۔
اب ایک ایسے صوبے میں جہاں شرح خواندگی بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہو وہاں تو اربابِ اختیار کو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے اس میں اضافے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے حالانکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب تو مالی اور انتظامی خود مختاری کی رکاوٹ بھی باقی نہیں رہی لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
نیشنل ایجوکیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں اسکولوں کی اکثریت انفراسٹرکچر اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہے چنانچہ بچے ناگفتہ بہ ماحول میں معیاری تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، یونیسف نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کی بخوبی نشان دہی کی ہے کہ سندھ میں اسکولوں سے زیادہ بڑی تعداد میں بچوں کے باہر ہونے کی ایک وجہ موسم کی شدت بھی ہے۔
بارشوں کی صورت میں یا تو اسکولوں میں چھتیں میسر ہی نہیں اور اگر ہوں بھی تو انتہائی بوسیدہ جن کے ٹپکنے سے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ غیرسرکاری تنظیم الف اعلان نے بھی سندھ میں تعلیم کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے کہ صوبے میں 60فیصد اسکولز مناسب عمارتوں، بجلی اور بیت الخلاجیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
سندھ حکومت نے اسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے سال 2013میں اسکولوں کے لیے ماحول دوست جدید ترین گرین ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر لائٹ گیج اسٹیل کی مدد سے سات ارب روپے کی خطیر لاگت سے 50اسکولز تعمیر کیے جانے تھے۔
اضلاع کی سطح پہ قائم کیے جانے والے ان انگلش میڈیم اسکولوں میں کیمبرج نصاب کے تحت جدید ترین تعلیم فراہم کی جانا تھی۔ منصوبے پہ عمل درآمد کا آغاز ہوا اور نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے مغربی ممالک کی طرز پہ سندھ میں بھی 21انگلش میڈیم کمپری ہنسو اسکولز تعمیر کر دئیے گئے۔
لیکن پھر سندھ حکومت کی روایتی بدانتظامی، بےحسی اور نا اہلی سامنے آئی اور اس منصوبے کو بریکیں لگ گئیں، سات ارب میں سے چار ارب روپے سے زائد خرچ کرکے 21 اسکولز تعمیر کرنے کے بعد نہ صرف باقی 29اسکولز کی تعمیر کھوہ کھاتے چلی گئی بلکہ جو اسکولز بنائے گئے انہیں بھی آپریشنل نہیں کیا جا سکا۔
اربوں روپے مالیت سے جو اکیس اسکولز قائم کئے گئے ان کی عمارتیں اب کھنڈرات کی شکل اختیار کرنا شروع ہو گئی ہیں جبکہ اسٹورز میں پڑا قیمتی سامان بغیر استعمال کئے ہی کباڑ بنتا جا رہا ہے۔ اربوں روپے مالیت کے اس منصوبے کی ناکامی کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ سندھ حکومت کے ارسطو چار ارب روپے خرچ کرنے کے بعد اب تک یہی فیصلہ نہیں کر پائے کہ ان اسکولوں کو کیسے چلایا جائے؟۔
پینسٹھ فیصد منصوبہ مکمل کرنے کے بعد سوچا جا رہا ہے کہ ان اسکولز کو کس انتظام کے تحت چلایا جائے۔ آکسفورڈ سے فارغ التحصیل پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کیا اس بدانتظامی کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیں گے؟۔
بلاول کی خوش قسمتی ہے کہ وزارتِ تعلیم کا قلمدان اب تعلیم دوست شخص سعید غنی کے پاس ہے جن کی مدد سے وہ نہ صرف اس منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے اور اربوں روپے ضائع کرنے والوں کا سراغ لگا کر انہیں قرار واقعی سزا دے سکتے ہیں بلکہ ان اسکولوں کو فوری آپریشنل کرنے کے ساتھ باقی ماندہ 29اسکولز کی تعمیر بھی شروع کرا سکتے ہیں۔
اس منصوبے کی جامع تحقیقات اور آڈٹ کرانے سے بلاول بھٹو زرداری کو ان وجوہات کے بارے میں بھی بخوبی پتا چل جائے گا کہ سندھ میں شرح خواندگی بڑھنے کے بجائے کم کیوں ہوئی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ