حکومت اور معیشت چلانا اتنا ہی آسان ہوتا تو70سال سے ملک پر براہ راست اور بالواسطہ راج کرنے والی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو سپرپاور نہ بنادیتی ۔
بات بالکل واضح ہے کہ اکانومی چلانا ہرگزاسٹیبلشمنٹ کے بس کی بات نہیں ۔ یہ آف دی ریکارڈ گفتگو ایک بڑے آئینی عہدے پر فائز تحریک انصاف کی اہم شخصیت نے چند صحافیوں کے روبرو کی ۔
اگرچہ اس میں کچھ نیا نہیں۔ آزاد تجزیہ کار ایک عرصے سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنا اصل کام احسن طریقے سے کرلے تو یہی کافی ہے ۔
دوسرے امو رمیں اسکی مداخلت معاملات کو بگاڑ سکتی ہے سدھار ہرگز نہیں لا سکتی ۔ اب کنگز پارٹی تحریک انصاف کے لوگ بھی ایسا کہنا شرو ع ہو گئے ہیں ۔
ان کا خیال ہے کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ ، گورنر سٹیٹ بنک رضا باقر کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مسلط کردہ آئی ایم ایف کی ٹیم مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور اسکی ناقص کارکردگی کے باعث حکومت کو سبکی کا سامنا ہے اگرچہ اس دلیل میں زیادہ وزن نہیں کیونکہ اگر کارکردگی کو معیار بنائیں تو ہر شعبہ، ہر وزارت تنزلی کی جانب جار ہی ہے ۔
اس حکومت کو لانے والوں نے بنیادہی جھوٹ پر رکھی تھی ۔ 2014ءکے دھرنے یاد کریں جب عمران خان اور طاہر القادری پورے ملک کو ہیجان میں مبتلا کرکے حکومتی نظام درہم برہم کرنے کے درپے تھے ۔
پپروپیگنڈامیڈیا کو اسی ٹولے کا مددگار بنادیاگیا تھا۔ ایسے ماحول میں یہ دونوں” عظیم “رہنما دھمکی آمیز تقریر یں کرتے ہوئے اچانک اپنی جیبوں سے پرچیاں نکال کر بتانا شروع ہوجاتے تھے کہ یہ ہوگیا ، وہ ہوگیا ۔
ان باتوں کا سرے سے ہی کوئی وجود نہ تھا ۔ جھوٹ بولنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ ملک میں کسی طور پر استحکام برقرار نہ رہے ۔
یہ جھوٹا پروپیگنڈا بھی ایک ڈاکٹرائن کے تحت تھا۔ ویسے یہ کوئی راز تو نہیں پھر بھی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر)اعجازشاہ اور وزیر ریلوے شیخ رشید کی جانب سے حالیہ دنوں میں بھی اس بات کا اعتراف کیاگیا ہے کہ نواز شریف کو کسی کرپشن وغیرہ پر نہیں بلکہ خالصتاً نافرمانی پر سزا ملی ورنہ وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم ہوتے ۔
اپنے مخالفین کو جھوٹ بول کر ہراساں اور بدنام کرنے کا یہ ڈاکٹر ائن اب بھی جاری ہے یہ الگ بات ہے کہ اب رنگ خاصے پھیکے پڑچکے اس حکومت کو جسے سلیکٹڈ سرکار بھی کہا جاتا ہے اپنے ہر کام کے لیے اداروں کا عملی تعاون درکار ہوتا ہے۔ خزانہ اور خارجہ امور تو بڑی دور کی بات ہے آج تک میڈیا سے ڈیل کرنے میں بھی یہ حکمران اداروں کے مرہون منت ہیں۔
پچھلے دنوں یہ خبریں آئی تھیں کہ سیاسی تبدیلی کے لیے کچھ ہل جل ہورہی ہے ۔ پھر اچانک ایسی اطلاعات آئیں کہ فی الحال اتنا کچھ نہیں ہورہا دونوں باتوں میں کتنی حقیقت ہے۔
چند واقعات کا جائزہ لے کر اس کا تجزیہ بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے ۔ نواز شریف کاعلاج کے لیے باہر جانا، مریم نواز کی خاموشی ، آصف زرداری کی ضمانت ، یہ تین واقعات ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ چل رہا ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ،ا حسن اقبال، خواجہ سعد ، خورشید شاہ اب تک گرفتار ہیں۔ حمزہ شہباز ضمانت حاصل نہیں کرسکے ۔ اب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اپوزیشن رہنماﺅں کے جیلوں میں آنے جانے کا سلسلہ ایک بار پھر سے شروع ہو نے والاہے ۔
یہ تو طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ پی ٹی آئی کی موجود ہ ٹیم سے مطلوبہ نتائج کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہے ۔
اسی لیے پہلے مرحلے میں وزارت خزانہ ، اطلاعات اور داخلہ وغیرہ میں تبدیلیاں کرائی گئی تھیں۔ کام پھر بھی نہیں چل رہا تو یہ سوچا گیا کہ اگر پنجاب میں کوئی فعال حکومت آجائے تو اس کے اثرات پورے ملک کی سیاست پر پڑیں گے ۔
اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کو قائل کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر بنی گالہ نے روحانی وجوہات کی بنا پر سرے سے مسترد کردیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے سوچا کہ عمران خان کو بتانے کا وقت آگیا کہ ”جادو کی چھڑی “ اصل میں ہے کس کے پاس، اپوزیشن کو تھوڑا سا ریلیف اور اتحادی جماعتوں کو ہلا شیری دی گئی تو حکومت گھوم گئی ۔
شکوہ کیا جانے لگا کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔ بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ اسیٹبلشمنٹ کو جہاں کوئی تبدیلی مقصود تھی اسے ان ہاﺅس چینج کے ذریعے سامنے لایا جانا تھا۔ ادھر اپوزیشن کی زیرک قیادت صورتحال بھانپ گئی کہ ملک کے حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ سنبھالناناممکن نہیں توبے حد مشکل ضرور ہے ۔
وہ بھی ایسی صورت میں جب ان ہاﺅس تبدیلی کے ذریعے اس پر مسلسل تلوار لٹکائی رکھی جائے۔ سواپوزیشن جماعتوں نے یہی مطالبہ کیا کہ بحران کا واحد حل نئے شفاف انتخابات ہیں ۔
اسٹیبلشمنٹ نے باریک بینی سے مطالبے کاجائزہ لیا تو سولہ آنے گھاٹے کا سودانظر آیا۔ اس وقت تو صرف پی ٹی آئی کی حکومت پر ہی تنقید ہورہی ہے ۔ دبے دبے لفظوں میں لوگ اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس تجربے پر کوس رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں نئے الیکشن ہوئے تو دھاندلی کر ناممکن نہ ہوگا اور اور جو نتیجہ آئے گا وہ کسی اور کے لیے کم ، خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے ڈراونا خواب ثابت ہو سکتا ہے ۔
یہ پوچھا جائے گا کہ اچھے خاصے چلتے ملک کو بدترین بحران میں مبتلا کرنے کا نادر آئیڈیا کس کا تھا؟
اداروں کے اختیارات پربحث ہوگی اور پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ سو یہ طے کیاگیا کہ ”وسیع تر قومی مفاد“ کا تقاضا یہی ہے کہ موجود ہ نظام کو برقرار رکھ کہ اس کا ساتھ دیا جائے شاید سال چھ ماہ بعد کوئی معجزہ ہو جائے ۔
اسی پالیسی کے تحت اپوزیشن کو ریلیف دینے کا حجم گھٹادیا گیا ۔ میڈیا اور دیگر تمام محاذوں پر حکومت کی عملی طور پر مدد کی جارہی ہے ۔
آئی ایم ایف سے معاہدے اور ناقص اقتصادی پالیسیوں کے سبب بحران ٹلنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔
سو یہ طے کیاگیا کہ ہر چیز کو مثبت بنا کر پیش کیا جائے ۔ کسی کو یہ اجازت ہی نہ دی جائے کہ وہ حقیقی مسائل کو اجاگر کرے یا میدان عمل میں آکر حکومت کے لیے مشکلات پید اکرے ۔
یہ الگ بحث ہے کہ ایسا ہوبھی پائے گا یانہیں؟ فی الوقت تو بڑی اپوزیشن جماعتوں کو حکومت گرانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ سلیکٹڈ سرکار ہر گزرتے دن کے ساتھ سلیکٹروں کے سروں پر وزن بڑھارہی ہے ۔ دونوں آپس میں لگے رہیں تو بہتر ہے ۔
کوئی آئینی ادارہ بھی ایسا فعال کردار ادا نہیں کررہا جس سے حکومت کو اپنے امور چلانے میںکوئی مشکل پیش آتی ۔
پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے بعض ایکشن لے کر جوڈیشل ایکٹوازم تیز کرنے کا اشارہ دیامگر اب وہاں بھی معاملات روٹین پر آگئے ہیں ۔
کوئی یہ نہیں چاہتا کہ حکومت کی نااہلی کا ملبہ اس پر پڑے ۔ تمام اداروں کا بھر پور تعاون حاصل ہونے کے باوجود یہ حکومت اپوزیشن تو بڑی دور کی بات آزاد میڈیا کی بھی متحمل نہیں ہوسکتی ان کی کارکردگی صرف اورصرف الزامات لگانا ہے ۔
وہ بھی ایسے ماحول میں کہ سامنے والے کے ہاتھ پاﺅں بندھے ہوں۔ورنہ خود دوڑ جائیں جیسا پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں ”چیتے“ مراد سعیدکے ساتھ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے ایوان سے سرپر پاﺅں رکھ کر فرار ہونے پر مجبور کردیا۔
عمران خان مسلسل اپنی کہی ہوئی تمام باتوں کی نفی کرتے جارہے ہیں پرانی حکومتوں کے منصوبوں کو نئے نام دے کر چلایا جارہا ہے حالانکہ ماضی میں وہ ان پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔
کرپشن پورے عروج پر ہے ۔ سٹاک ایکسچینج، ڈالر ریٹ سے لے کر آٹے چینی تک دیہاڑیاں لگائی جارہی ہیں ۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ مشہورزمانہ جے آئی ٹی والے واجدضیا کی ایف آئی اے نے جب آٹا، چینی بحران کے حوالے سے افرادکے نام لکھ کر بھجوائے تو وزیر اعظم نے رپورٹ ناقص قرار دیکر تبدیل کرکے بھجوانے کا حکم جاری کر دیا۔
حد تو یہ ہے کہ ماضی کی حکومت پر تنقید کرنے والی پی ٹی آئی حکومت نے ڈالر کی قیمتوں میں مصنوعی استحکام کےلئے 5ارب ڈالر مارکیٹ میں فروخت کیے۔ اب باقی رہ ہی کیا گیا ہے ۔ سفارتی محاذ پر بھی مسلسل ناکامیاں ہیں اب سعودی عرب سے بھی پہلے والے تعلقات نہیں ۔
ترکی اور ملائشیا سے کبھی تعلقات بنائے جاتے ہیں کبھی پیچھے ہٹا جاتا ہے ۔ یہ دونوں ممالک پاکستان کے سچے دوست لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں اپنی مصنوعات کےلئے بڑی منڈیاں درکار ہیں۔
ہمارے ہاں صنعت ، تجارت تو کیا زراعت کا بھی حال خراب ہے ۔ قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن میدان میں آئے یا نہ آئے یہ اس کی مرضی، لیکن عوام تنگ ہی نہیں اکتا چکے ہیں ۔
آئی ایم ایف اپنی تمام شرائط منوائے گا۔ بس وقت تھوڑا بہت آگے پیچھے ہو سکتا ہے اور اس کے تمام مضمرات عام پاکستانی کو بھگتنا پڑیں گے ۔ حکومت اور آئی ایم ایف تعلق بھی اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ جیسا ہے ۔ یعنی سوجوتے اور پیاز ایک ساتھ کھانا ہونگے ۔
ایک دور تھا جب صرف کم ہمت اور نااہل سیاستدان ہی عوام کی نظروں میں گرتے تھے ۔ اب لگتا ہے کہ یہ حکومت سب کو گندا کرکے چھوڑے گی ۔
آگے کب کیا ہوگا ؟ اللہ جانے مگر عرض ہے کہ زمانہ حال میں سارا نظام ایک طے شدہ ڈاکٹرائن کے تحت چل رہاہے جس کے دو نکات ہیں (۱) اپنی کامیابیوں کے جھوٹے دعوے (۲) دوسرں پر بے بنیاد الزامات ،ستم ظریفی یہ کہ قوم کو مجبو رکیا جارہا ہے کہ وہ ہر جھوٹ کو آواز حق مان کر خاموش رہے ۔بڑی اپوزیشن جماعتیں تو طاقتوروں کے آگے سجد ہ ریز ہو چکیں ۔ عوام البتہ سوال پوچھ رہے ہیں۔
عمران کوکیسا پاکستان ملا
کیا عمران کو 1947ءکا نوزائیدہ پاکستان ملا ؟
کیا عمران کو 1965ءکا جنگ زدہ پاکستان ملا؟
کیا 1971ءکا ٹوٹا ہوا پاکستان ملا؟
کیا 2010ءکا دہشت گردی سے زخمی پاکستان ملا؟
کیا ایسا پاکستان ملا جس کے معاشی حب کراچی کو لندن میں بیٹھے ایک شخص نے یرغمال بنا رکھا تھا۔
بلکہ عمران کو ملکی تاریخ کا سب سے پرامن ، معاشی سرگرمیوں والا چلتا ہوا پاکستان ملا ۔ جس میں جی ڈی پی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی ، سٹاک ایکسچینج ریکارڈ بنا رہی تھی ، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ دہشت گردی کی کمر توڑ ی جا چکی تھی ۔ مہنگائی کی شرح سب سے کم تھی ، لوگوں کے کاروبار چل رہے تھے ، نوکریاں مل رہی تھیں ، معاوضے بڑھ رہے تھے ، زراعت میں ایکسپورٹ بڑھ رہی تھی۔
سرکاری و نجی ترقیاں ہو رہی تھیں، ملکی تاریخ کا سب سے بڑا انفراسٹرکچر کھڑا کرنے کاکام زور و شور سے جاری تھا۔
اب رونا دھونا کیسا ؟نالائقی کا ملبہ دوسروں پر کیوں ؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ