آج مجھے باہر سے کچھ دوست ملنے آے اور باتیں سیاست سے ہوتی ہوے مہنگائی پر جا پہنچی۔کہنے لگے یار ڈیرہ تو چھوٹا سا شھر ہے یہاں تو چیزیں بھی خالص ملتی ہونگی اور سستی بھی۔
میں ہنسنے لگا تو وہ پوچھنے لگے اچھا سچ سچ بتاو یہاں مہنگائی کا کیا حال ہے؟ میں نے انہیں سرائیکی کا شاکر شجاع آبادی کا شعر سنایا ۔؎ تو شاکر آپ سیانڑاں ہیں۔۔ساڈے بوتھے ویکھ حالات نہ پُچھ۔۔ مطلب شاکر کہتا ہے ہمارے بوتھے دیکھو حالات مت پوچھو۔ کہنے لگے سبزی تو یہاں سستی ہوگی میں نے انہیں بتایا کہ تھوڑی دیر پہلے ایک پاو تھوم ایک سو روپے میں خریدا ہے ۔ دکاندار کہ رہا تھا چین سے کرونا بیماری کی وجہ سے مال نہیں آ رہا اور تھوم چین سے آتا ہے شارٹ ہے اس لیے مہنگا ہو گیا۔
اب ڈیرہ ایک زرعی علاقہ ہے مگر ہم نے میٹرو بسوں۔اورنج ٹرینوں پر کھربوں روپے اڑا دیے اور زراعت کو پیچھے چھوڑ دیا اب ہر چیز چین سے آ رہی ہے۔ دوست کہنے لگے ہمیں پتہ ہے تم پی ٹی آئی کے سپورٹر ہو اس لیے ان منصوبوں پر تنقید کر رہے ہو کیونکہ یہ نواز شریف کے منصوبے تھے۔
میں نے کہا جی ہاں میں پی ٹی آئی کا سپورٹر ہوں اور تبدیلی سرکار کو ووٹ دیتا رہتا ہوں پھر مجھے ہنسی آ گئی ۔ دوست پوچھنے لگے اب کیوں ہستے ہوں میں نے کہا یونہی سرائیکی کا لطیفہ یاد آ گیا اس لیے ہنس پڑا۔انہوں نے کہا ہمیں وہ لطیفہ ضرور سناو ۔میں نے کہا ہمارے سکول کے ایک استاد نے شاگرد سے پوچھا۔۔ پڑھ کے کیا بنڑسیں۔۔سرائیکی بچے نے جواب دیا ۔۔پائیلٹ بنڑساں استاد جی۔۔ استاد نے پوچھا۔۔ ول جڈاں توں جہاز تے آسیں تاں ساکوں کیویں پتہ لگسی اے رمضو دا جہاز ویندا پیے۔۔ بچے نے جواب دیا ۔۔استاد جی میں تہاڈے اتے بم سٹی ویساں۔۔
مطلب یہ بچہ پایلٹ بنے گا اور استاد نے جب پوچھا کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا اوپر والا جہاز رمضو شاگرد کا ہے رمضو کہتا ہے استاد جی میں آپ کے اوپر بم گرا دونگا تاکہ پتہ چلے رمضو کا جہاز جا رہا ہے۔
اب ہم نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا کہ عمران خان وزیراعظم بنے اور وہ بن گیا ۔اب ہمارے اوپر مہنگائی کا بم گرا تو یہ پتہ چلا کہ اوپر پی ٹی آئی کا جہاز گزر رہا ہے۔ ہر روز نیے نیے ٹیکس ۔IMF کی ٹیم آجکل ہمارے ملک میں بیٹھی ہے اور تجاویز دے رہی ڈو مور بجلی گیس تیل پر ٹیکس بڑھاو نہیں تو 45 کروڑ ڈالر کی قسط نہیں ملے گی۔ IMF کی ٹیم 45 کروڑ کے عوض 45 ارب روپے کے ٹیکس کا مطالبہ نہیں کر رہی بلکہ دوسو ارب کے ٹیکس لگوانا چاہتی ہے ۔چین سے تجارت کم کروانا چاہتی۔سی پیک پر بھی نظر رکھنا چاہتی ہے۔
دوسری طرف حکومت نے دس ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے اور خبروں میں لکھا ہے پیکیج سے چینی دو روپے اور گھی پانچ روپے کلو مہنگا ہوا ہے۔ یہ بات بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں ہوا؟ PTI کے ورکر بے چارے لوگوں کے طعنوں اور تضحیک کو برداشت کر رہے ہیں ۔پرانی بات ہے ایک آدمی تلوار لیے مسجد میں گیا اور آواز لگائی آپ میں کوئی سچا مسلمان ہے۔
ایک بزرگ بولے میں ہوں۔وہ آدمی بزرگ کو باہر لے گیا اور اس کے قدموں میں تلوار سے بکرا ذبح کیا۔پھر مسجد میں گیا تلوار سے خون ٹپک رہا تھا لوگ گھبرا گیے وہ بولا اور کوئی سچا مسلمان ہے؟
کسی نے آواز لگائی مولوی صاحب ہیں۔ مولوی غصے سے بولا ۔بکواس کر رہا ہے کمینہ ۔۔میں تو اعلان کروانے آیا تھا کہ پرسوں سے کیبل نہیں آ رہی۔
اب مہنگائی کا بم گرتا ہے آٹے کی شارٹیج ہوتی ہے تو جب لوگ شکایت کرتے ہیں تو ہمارے پی ٹی آئی کے ورکر کہتے ہیں بکواس کر رہے ہیں لوگ یہ تو مصنوعی قلت ہے۔جی ہاں ہے تو مصنوعی قلت مگر پس تو غریب رہا ہے اور دہاڑی دار۔ غریب ۔یتیم۔اور بیوہ عورتیں مہنگائی کی وجہ سے مصیبت کا شکار ہیں۔ اور ایک مافیا کما رہا ہے اس مافیا کو کون پکڑے گا اس بات کا پتہ نہیں چل رہا۔ لوٹی ہوئی دولت کب واپس آے گی یہ کوئی نہیں بتاتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ