نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چولستان جیب ریلی، محض امراء کی تفریح اور عیاشی۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا.

جیب ریلی کے نام ہونے والے اس ایونٹ میں صرف جیبوں کی ریس ہی نہیں ہوتی بلکہ امراء طبقے کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق بہت کچھ ہوتا ہے.

خطہ سرائیکستان کے صحرا روہی چولستان میں ضلع بہاول پور کے علاقے تاریخی قلعہ دیراور کے مقام پر15ویں چولستان جیب ریلی 13,14,15فروری کو منعقد ہونے جا رہی ہے. ملک بھر سے جیب ریلی مقابلے میں شریک ہونے والے امراء شائقین شریک ہوتے ہیں.

جیب ریلی کسی طرح بھی مقامی اور عوامی ایونٹ نہیں ہے بلکہ یہ خالصتا امراء طبقے کا ایک مہنگا تفریحی ایونٹ ہے. ایک مخصوص اور محدود طبقے کے اس ایونٹ پر قومی خزانے سے اچھی خاصی رقم ہر سال خرچ ہوتی ہے.

جیب ریلی کے نام ہونے والے اس ایونٹ میں صرف جیبوں کی ریس ہی نہیں ہوتی بلکہ امراء طبقے کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق بہت کچھ ہوتا ہے.

اس بہت کچھ میں آپ آشائشات اور عیاشیات کے حوالے سب کچھ سمجھ لیں.
محترم قارئین کرام،، چولستان جیب ریلی کے آغاز پر علاقے کی تعمیر و ترقی، قلعہ ڈیراور اور گرد و نواح کے علاقے میں سیر و سیاحت کے فروغ، تفریحی مقامات اور پوائنٹس کی تعمیر مقامی دستکاری اور ثقافت کے پھیلاؤ مقامی ہنر مندوں اور فنکاروں کے لیے ترقی اور خوشحالی کے دور کے آغاز سمیت بہت ساری خوشخبریاں سنائی اور سہانے منظر دکھائے گئے تھے.

پندرہ سالوں کے دوران ان میں سے کیا کیا اور کتنے وعدے اور خواب سچ اور پورے ثابت ہوئے ہیں. علاقہ دھرتی لوگ سب کچھ ہمارے سامنے ہے. چولستان جیب ریلی کے جو فوائد اور خوبیاں بیان کی گئی تھیں یا بیان کی جا رہی ہیں ان صاحبان کو چاہئیے کہ وہ اپنی پندرہ سالوں کی پراگریس کو بھی عوام کے سامنے رکھیں.

اس جیب ریلی کے علاقے اور مقامی عوام کو مثبت ثمرات میسر آئے ہیں وہ بھی گن کر بتائے جائیں.ہم لاعلم لوگوں کو بھی معلوم ہو سکے کہ نیشنل اور بین الاقوامی شہرت یافتہ اس ایونٹ کی وجہ سے چولستان اور چولستانیوں کی زندگی میں فلاں فلاں انقلاب برپا ہوا ہے.

امراء طبقے کو بھی تفریح کا حق حاصل ہے مگر جو کچھ مشاہدے میں آیا ہے اس حقیقت کی روشنی میں چولستان جیب ریلی کو اگر صرف امراء طبقے کی تفریح عیاشی اور فحاشی کا نام دیا جائے تو قطعا بے جا نہ ہوگا.ایسے پروگرام سرکاری خرچ پر ہوں یا کوئی مخصوص طبقہ اپنی جیب سے کرے. یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ وہ کسی علاقے کا ماحول جا کر خراب کرے.

جو لوگ جیب ریلی ایونٹ اور وہاں کے کیمپوں کا وزٹ کر چکے ہیں وہ تمام حقائق کو بخوبی جانتے ہیں.اس تین چار روزہ ایونٹ کے لیے کیمپنگ چار پانچ روز قبل شروع ہو جاتی ہیں. سرکاری اداروں کی میٹنگز اور اجلاسز ایک مہینہ قبل شروع ہو جاتے ہیں.روٹ اور ٹریک کی دیکھ بھال اور سیکیورٹی پر سینکڑوں سرکاری ملازمین پابند ہوتے ہیں.

گرد و نواح کے مال مویشی پال لوگوں پر کئی پابندیاں بھی لاگو ہوتی ہیں. یقین کریں اس تین چار روزہ ایونٹ کے موقع پر روہی روہی نہیں یورپ بنی ہوتی ہے.جس روہی سے جڑی بوٹیوں کی خوشبو آتی ہے ان مخصوص ایام میں شراب شباب کباب کی فراوانی کی وجہ سے مہک میں انقلاب برپا ہوا ہوتا ہے.

ہزاروں خالی بوتلوں اور دیگر گندگی سے قلعہ ڈیراور کا مخصوص ایریا پورا مہینہ مہکا رہتا ہے. جیب ریلی کے روٹ کے آس پاس مال مویشی اچانک پیدا ہونے والے شور و غل کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں.

بڑی تعداد میں اوپرے لوگوں کی آمد سے روہی کی خواتین خاصی پریشان اور ڈسٹرب ہوتی ہیں.عارضی طور پر یکسر بدل جانے والی روہی اور تین چار روزہ ٹھاٹھ باٹھ کو دیکھ کر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم روہیلے لوگوں کے احساس محرومی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے.

وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ بھی پاکستانی اور ہم بھی پاکستان ہیں. ان کے تین دن کے ایونٹ اور قیام کے لیے کیا کیا انتظامات، سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں. اور ہم لوگ جو روہی کا سنگار، جان اور زندگی ہیں لائیو سٹاک کے ذریعے کروڑوں اربوں روہے قومی معیشت میں شامل کر رہے ہیں.ملک کے عوام کے لیے تازہ دودھ ڈیریز اور گوشت وغیرہ فراہم کر رہے ہیں.

ہم کیونکر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں. انتظامیہ اور حکمران ان کے لیے کیوں کچھ نہیں کرتے.یہ ڈیراور شاہی قلعہ تھا شہر آباد تھا. یہ پھر آباد کیونکر نہیں ہو سکتا.
محترم قارئین کرام، انتظامہ بیورو کریسی اور حکمران اگر چاہئیں تو قلعہ ڈیراور سمیت چولستان میں واقع کئی تاریخی قلعہ جات پر کچھ خرچ کرکے انہیں سیر وسیاحت کے لیے پرکشش بنایا جا سکتا ہے.

ان کے گرد و نواح میں وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق مزید ڈویلپمنٹ کرکے انہیں مزید پرکشش بنایا جا سکتا ہے.مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع میں اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ٹھوس بنیادوں پر ایسا کچھ نہیں کیا گیا.حکمرانوں کے دعووں کی حقیقت ریت کے ٹیلوں سے زیادہ نہیں ہے.

جو ہوا سے اِدھر اُدھر بکھرتے رہتے ہیں. حکمران طبقے اگر سرائیکی وسیب اور چولستانیوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتا تو کم ازم زخموں نمک پاشی تو نہ کریں. روہی کی زمینوں کی بندر بانٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے.

فرضی سیکیمیں، جعل سازی،جعلی متاثرین مقامی حقداروں کے حق کو مارنے کے لیے روہی چولستان ہو یا خطہ سرائیکی کا تھل لوٹ مار کے سینکڑوں طریقے اختیار کیے گئے ہیں اور آج بھی لوگوں کے حقوق غصب کرنے کے کئی نئے طریقے بھی لانچ کیے جا چکے ہیں.

کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر چھوٹے کسانوں کو ہضم کرنے کا منصوبہ بھی وطن عزیز میں جاری و ساری ہے.قصہ مختصرا مخصوص طبقے کو نوازنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا جا رہا.یہ جگہ خالی کرو یہ رقبہ ہم نے الاٹ کروایا ہے.

یہ ہماری زمیں ہے اٹھو جاؤ یہاں سے.وفاقی وزیر چودھری طارق بشیر چیمہ وغیرہ کے راج علاقوں میں صدیوں سے آباد مقامی لوگوں کے گھروں کو مسمار کرکے انہیں دربدر کرنے کےکئی واقعات رونما ہو چکے ہیں.روہی میں ہونے والی لوٹ مار کی داستان میرا آج کا موضوع نہیں ہے.

ورنہ نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے پرعزم، جرات اور غیرت مند عباسی نوجوان محمد رفیع عباسی کے پاس جمع ریکارڈ و کاغذات کی پوٹھاکڑیوں میں سے ایک کتاب اور اس کتاب میں سے کچھ کہانی آپ کے ساتھ شیئر کرتا.

ہمیں چولستان جیب ریلی پر اعتراض نہیں، ضرور کریں. لیکن گندگی نہ پھیلائیں، یہاں کا ماحول خراب نہ کریں. مقامی لوگوں کا احساس محرومی نہ بڑھائیں. چولستان اور چولستانیوں کے لیے بھی کچھ کریں. چولستان جیب ریلی کے موقع پر انتظامیہ کی جانب سے جملہ تفریحی اور ثقافتی پروگراموں میں چولستانی، سرائیکی ثقافت اور مقامی فنکاروں کو اجاگر ہونے کا پورا موقع اور حق فراہم کیا جائے.

سننے میں آیا ہے کہ مقامی سرائیکی فنکاروں، شعراء کرام کو تقریبا کارنر کر دیا گیا ہے. ان کی جگہ تخت لاہور کی بیورو کریسی کے منظور نظر ابرار الحق وغیرہ کو بھاری معاوضہ دے کر نوازا جا رہا ہے.

اگر یہ سچ ہے تو پھر کہاں گیا وہ دعوی مقامی ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کا.

چولستان جیب ریلی پر کل کتنے اخراجات آتے ہیں. وہ اخراجات کون برداشت کرتا ہے.جیب ریلی پر کتنے سرکاری ادارے اور سرکاری ملازمین ڈیوٹیاں دیتے ہیں. جیب ریلی سے کتنا ریونیو اکٹھا ہوتا ہے وہ کہاں خرچ کیا جاتا ہے.

اس بارے عوام کو بھی بتایا جانا چاہئیے.مخصوص طبقے کے اس مخصوص ایونٹ کے مقابلے میں روہی کے ایک بڑے عوامی تفریحی، ادبی، ثقافتی روحانی ایونٹ خواجہ فرید روہی میلہ جھوک فرید تحصیل لیاقت پور ضلع رحیم یار خان کو کیا سہولیات اور فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں.

یہاں سیکیورٹی کے نام پر تفریحی ثقافتی پروگراموں پر پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں.محض اس لیے کہ یہ سرائیکی اور عوامی ہوتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے تو بتا دیں. غریب اور مقامی فنکاروں کی حق تلفی کے یہ سلسلے بند ہونے چاہئیں.روہی میلہ بھی21,22,23فروری کو ہونے جا رہا ہے.

ہم سب اللہ تعالی سے خواجہ فرید روہی میلے کے روح رواں سجادہ نشین دربار فرید ؒ خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں.

خواجہ صاحبان نے اس تاریخی روحانی ثقافتی علمی و ادبی میلے کو جیب ریلی کے ایونٹ کی تاریخوں سے علیحدہ کرکے بہت اچھا کیا ہے. سابقہ کچھ سالوں کی طرح اگر اسے ان تاریخوں کے ساتھ جوڑا جاتا تو یقینا اس میلے کا امیج بھی خراب ہو جاتا.اپنے وجود، اپنے لوگوں، اپنی شناخت، اپنی خوشبو، اپنی مٹی، اپنی دھرتی کے ساتھ جڑت ہی میں احساس، محبت،تسکین، سکون و قراراور طاقت ہے.
اے روہی یار ملاوڑی ھے
روہی بلاشبہ محبتوں والی، جوڑنے اور وفا والی دھرتی ہے.
وفا نال جو تھیوے جفا
ھے کئی جو نتارا کرے
وطن عزیز اور سرائیکی وسیب میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے. کیوں اور کب تک؟

About The Author