حرف جوڑنے بیٹھا تو فقیر راحموں نے مشورہ دیا شاہ جی! آج سیاسی کالم لکھنے کی بجائے کچھ اور لکھو۔
سیاست ومعاشرت اور چاراور کے مسائل کیوں نہیں؟
جواب ملا یہ تو روز کی باتیں ہیں’ ساعت بھر کیلئے سوچا اور پھر فیصلہ کرتے ہی بنی۔ نصف صدی سے اوپر کی دوستی کا بھرم اور فرمائش دونوں حق رکھتے ہیں’
عرب کے بے مثال شاعر حاذق کی یادوں نے دستک دی، وہی حاذق جس نے بھرے دربار میں بے خوف وخطر کہا تھا ”بھائیوں کا گوشت کھاتے ہو مجبوروں کا لہو پیتے ہو’ وقت ہاتھ سے نکلا موسم بدلے تو وہی کاٹو گے جو بو رہے ہو’ زمین کھا جائے گی صداقت وانصاف اور ایثار کو بھول جانے والوں کو’ شور وشین کرنے والو
یاد رکھو!
قدرت کا فیصلہ صادر ہو کر رہے گا’ خاک اُڑائی جائے گی’ تم گم ہو جاؤگے تاریخ کی دھول میں’ سامان عبرت بنتے ہیں وہ لوگ جو کھاتے نہیں شکم بھرتے ہیں”
سچ یہی ہے’ لوگ علم’ انصاف اور شجاعت کو یاد رکھتے ہیں جو دادرسی نہیں کرتے انہیں سوال زیبا نہیں، زندگی اور زمین پر بوجھ بنے لوگ ہیں وہ جو اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھ پاتے۔
جناب عبید یاد آئے کہا تھا
”جو کہہ دیا گیا سو کر دیا گیا’ سچ تھا یا جھوٹ’ منہ سے نکلی بات کے بارے میں اب تیرے عذر ومعذرت سے کیا حاصل”
طالب علم کبھی کبھی عجم والوں پر حیران ہوتا ہے جو قبل ازاسلام کے دور کی شاعری کو زمانہ جاہلیت کی شاعری کہتے لکھتے ہیں۔
تین دین تو اس وقت بھی بلاد عرب میں موجود ومعروف تھے۔ دین حنیف (حضرت ابراہیمؑ کا دین) دین موسویؑ اور دین عیسویؑ’
بھلا زمانے بھی کبھی جاہل ہوتے ہیں؟،
ہر زمانہ پچھلے زمانے کے مقابلہ میں نئی روشنی’ افکار وعلوم لئے آتا ہے تبھی تو دنیا آگے بڑھتی ہے۔
نئے افکار کی دستک سے بیدار ہونے والے بھلا جاہل کیسے ہوسکتے ہیں۔ لوگ بھی عجیب ہیں اپنا کج زمانوں پر ڈال کر تسکین پاتے ہیں۔
طالب علم نے جب بھی تاریخ کے پچھلے چند ادوار بارے چاراورکے لوگوں کے فہم پر غور کیا ایک ہی جواب ملا
”زعم کی دیمک جنہیں چاٹ جائے وہ کلام اور صاحب کلام کا اعتراف کم ہی کرتے ہیں’ حالانکہ بڑائی اعتراف میں ہے’ انکار میں نہیں”۔
چلئے ہم غثان کو یاد کرتے ہیں’ غثان بن نوفل جس نے کہا تھا
”اپنے دفاع کیلئے پورا پورا سامان کر لے کیونکہ معاملہ بحث وتکرار سے آگے گزر چکا وقت نے ایک ہی جنگ کا بوجھ تجھ پر ڈالا ہے کہ جس کے باعث مرد بزرگوار (جہاندیدہ) کو سادہ پانی سے بھی اُچھو ہونے لگتا ہے”
اور وہ عروہ بن فضیل جس نے برجستگی سے جواباً کہا
”اگر تو نے جنگ کا بوجھ مجھ پر لاد ہی دیا ہے تو پھر میں کوئی گیا گزرا ہرگز نہیں ہوں اور نہ میرے ہتھیار بودے ہیں”
امرؤالقیس کہتے ہیں
”تیری گفتگو مٹھاس سے بھری ہوئی ہے اس کے ضمیر میں جو کچھ پنہاں تھا سراسر کڑواہٹ تھی اور کیا تھا”
مرد ہی کیا اس عہد کی خواتین بھی اظہار کی دولت سے مالامال تھیں۔ بعض خواتین شعرا تو اس فن میں بھی یکتا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی شاعری سے میدان جنگ میں سورماؤں کا حوصلہ بڑھایا۔
جنگ کے ہی ایک میدان میں القندالزمانی حضرمی کی صاحبزادی کلثوم نے کہا
”جنگ، جنگ، جنگ کی تپش بھڑک گئی ہے اور ٹیلے اس سے پُر ہوگئے ہیں، چاشت کے وقت سر منڈوانے والے کتنے اچھے ہیں۔
امرؤالقیس کہتے ہیں۔
”رات کو غرق ہوئی بجلی نے مجھے سونے نہ دیا’ اس کی چمک قلعہ کوہسار پر روشنی کرتی رہی”
امرؤالقیس کے والد اس کے بچپن میں ہی قتل ہوگئے تھے اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے ایک موقع پر امرؤالقیس نے کہا
”اس کم سنی نے مجھے گنوا دیا’ اب جب میں بڑا ہوا ہوں تو اس خون کا بوجھ بھی مجھ پر اُترا ہوا ہے’ آج کا ہوش ہے ناکوئی کل کا کام”
امرؤالقیس نے کسی اور موقع پر یوں بھی کہا
”ساتھیو!
ٹھہرو کہ ہم گریہ کریں محبوب ومنزل کی یاد میں”
پھر گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے کہا ‘
"جب طائر ابھی آشیانوں میں ہی ہوتے ہیں میں ایک تنومند گھوڑے کو لیکر تھکتا ہوں جس کے بدن پر رواں بہت کم ہے اور جو جنگلی جانوروں کیلئے زنجیرپا حکم رکھنا ہے۔ کسی طرف سے انہیں نکلنے نہیں دیتا”
اموالقیس کے ایک قصیدے کا مطلع کچھ یوں ہے
”اے مٹے مٹے نشانوں!
صبح بخیر’ مگر کیا بیتے ہوئے دنوں میں بسنے والوں کے بخیر ہونے کی بھی کوئی صورت ہوسکتی ہے”
فضیل بن عیاض کی یادوں نے دستک دی’ کیا شاندار اور زندہ رہنے والی حقیقت بیان کی’ فضیل کہتے ہیں
”لوگ بھی عجیب ہیں’ تکبر ونفرت اتراتے ہوئے ایسے چلتے ہیں جیسے مرنے کیلئے پیدا ہی نہیں ہوئے’ کوئی سمجھائے انہیں زندگی امانت ہے’ زندگی کی امانت میں خیانت بے نسبوں کا شیوہ ہے”۔
زہیر بن واثق نے کہا
”میرے پاس زندگی کا وہ تجربہ تھا جو اس کے پاس نہیں تھا’ سو میں نے اس سے کہا ‘دھیان میں رہ تو ایک خواب دیکھ رہا ہے جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے”
زہیر ہی کہتے ہیں
”اگر مدح وستائش’ حیات جاودانی عطا کرسکتی تو میرے ممدوح حرم تو کبھی نہ مرتا۔ مگر کیا کیجئے مدح وستائش سے عمر ابد حاصل نہیں ہوتی”
ایک اور موقع پر زہیر نے کہا
”جب تم اس کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہو تو اس کا چہرہ یوں کھل اُٹھتا ہے جیسے تم کچھ مانگ نہیں رہے بلکہ اسے عطا کر رہے ہو”
جنگ وجدل اور نفسانفسی سے بیزار اس قادالکلام شاعر زہیر نے کہا
”میں نے موتوں کو دیکھا ہے کہ ایک شب اونٹنی کی طرح اندھا دھند ہاتھ پاؤں مارتی ہے جو اس کے ہتھے چڑھ گیا اسے مار ڈالتی ہے”۔
ہائے مگر اس کا کیا کیجئے
”کتنے ہی خاموش لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر ہم بڑے متاثر ہوتے ہیں ”
انسان کا نصف تو اس کی زبان سے عبارت ہے اور نصف اس کا دل
” باقی تو بس گوشت اور خون کا پتلا بچتا ہے”
عبید دہمی کہتے ہیں
”غریب الوطنی میں جو دوستوں کو دشمن تصور کریں وہ عزت کھو بیٹھتے ہیں”
جواں سال بھائی کی وفات پر عبید کہتے ہیں
”ہم بوسیدہ ہوگئے’ مگر آسمان پر اُبھرتے یہ ستارے بوسیدہ نہیں ہوتے اور ہمارے بعد یہ گھر وعمارتیں جوں کی توں کھڑی رہ جاتی ہیں’ سو اگر ہمارے درمیان زمانے نے جدائی ڈال دی ہے’ جزع وفزع کے کوئی مقام نہیں کیونکہ ایک دن ہر انسان داغ کھا کر ہی رہے گا”
” لوگ گم ہوگئے’ جن کے قریب میں جینے کا لطف تھا اور میں اس گزری کھیپ میں سے بچ رہا جو خارش زدہ اونٹ کی مانند ہے کہ جو پاس آئے وہ مبتلائے اذیت ہو”۔
سچ یہی ہے کہ یادوں اور کتابوں کے اوراق اُلٹتے رہنے سے ہی زندگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
انسان تو سدا طالب علم ہی رہتا ہے’ آغوش مادر گرامی سے دھرتی ماں کی گود میں جا سونے کے درمیانی ماہ وسال میں علم سے اعلیٰ نعمت اورکیا ہے بھلا، تعصب وجہل سے نجات اسی طور ممکن ہے کہ آدمی طالب علم ہی رہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر