عوام 22 سال تحریک انصاف کے رہنماٶں کی تقاریر سنتے رہے اور یہ امید لگا بیٹھے کہ جب یہ پارٹی بر سر اقتدار آۓ گی تو ہر طرف انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ملک سے رشوت ستانی اور کرپشن ختم ہو جاۓ گی۔
مہنگائی کم ہو گی روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے اور غربت کا خاتمہ نہیں تو غربت کم ضرور ہو گی۔اسی طرح ملک سے لوٹی دولت واپس آ جاۓ گی۔بجلی گیس پٹرول کے نرخ کم ہو نگے اور خوشحالی کا ایک نیا پاکستان جنم لے گا۔
ہم خیبر پختونخواہ کے لوگ تو پچھلے پانچ سال بھی PTI کی حکومت کو موقع دے چکے تھے اور نیے انتخابات میں تو ہماری محبت نے پارٹی کو absolute majority دلوا کر حکومت میں بٹھا دیا۔
مرکز میں بھی حکومت قائم ہو گئی اور اب انتظار شروع ہوا کہ PTI کی حکومت اپنی کارکردگی دکھاۓ گی اور پرانی سیاست کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ KPK میں اب تک کی نئی حکومت کی کارکردگی PTI کی گزشتہ حکومت سے بھی خراب جارہی ہے حالانکہ یہ پچھلی حکومت کے تسلسل میں بہت بہتر ہو سکتی تھی۔
مرکز میں غریب کے لیے وَچھوں ۔کٹوں۔مرغیوں ۔انڈوں سے بات شروع ہوئی مگر آٹے کا ریٹ 40 روپے سے مارکیٹ میں 55 پر آ گیا۔ چینی ۔گھی۔سبزیوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگے ۔
گیس۔بجلی۔تیل کے نرخ کہاں سے کہاں آ گیے۔ڈالر جتنا اس حکومت میں مہنگا ہوا اتنا ماضی کی کسی حکومت میں نہیں ہوا۔ لوٹی ہوئی دولت آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی ملک کو واپس نہ مل سکی۔
نئے سال کو خوشحالی کا سال قرار دے کر تیل۔ بجلی ۔گیس کے ریٹ بڑھا دیے گیے۔ انصاف کا یہ عالم ہے کہ آے روز وکیل ہڑتال پر ہوتے ہیں موکل چکر لگا لگا کے تھک جاتے ہیں۔ حکومت اور وکلاء میں کوارڈنیشن نہیں ہو پا رہا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں PTI سب سے زیادہ متحرک اور مستعد جماعت تھی جس کی وجہ سے پورے ڈویژن میں سویپ کر گئی مگر علی امین خان کے مرکز جانے سے پتہ نہیں کیا ہوا کہ آہستہ آہستہ خاموشی اور جمود طاری ہونے لگا۔
اب اگر معاشرے میں آٹا مہنگا اور غریب کی عزت سستی ہو تو وہاں تحریک انصاف سے کیا انصاف ملے گا۔ پہلے شدید گرمی میں رات دو بجے ٹرانسفارمر خراب ہوتا تو لوگ اسی وقت علی خان کو فون کر کے ٹرالی لے آتے اور مسئلہ حل ہو جاتا تھا۔
اس وقت جب مرکز میں بھی PTI کی حکومت ہے واپڈا سرکل تو کیا آتا بل ٹھیک کرنے والا کمپوٹر بھی ڈیرہ نہ آ سکا۔ واپڈا کا جرمانے دھڑا دھڑ لگا کر معاف کرنے کا اختیار بھی بنوں منتقل ہو گیا۔
اب لوگ بر ملا کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے علی امین خان گنڈہ پور کو ہم سے چھین کر زیادتی کی ہے ۔علی امین خان کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر اس کو KPK کا وزیراعلی بنا دیا جاتا تو کم ازکم ہمارے صوبے کے حالات مختلف ہوتے۔اگرچہ میری اور عوام کی اس خواب نما تجویز سے علی امین خان کے مخالفین مجھ پر خوب برسیں گے۔
خیر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ایک مرتبہ ایک بزرگ کہیں جا رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بوڑھا کسان نہایت تندھی سے کھیتی باڑی میں مشغول ہے۔بزرگ حیران ہویے کہ انسان اس عمر میں بھی اتنی محنت کر سکتا ہے۔
انہوں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ وہ اس بوڑھے کسان سے امید ختم کر دے۔ بزرگ کی دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے کسان کے دل سے امید ختم کر دی۔
یکایک بوڑھے نے اپنا ہل پھینکا اور ایک درخت کے نیچے جا کر لیٹ گیا۔ یہ بزرگ اس کے پاس گئیے اور وجہ پوچھی۔ بوڑھا کسان کہنے لگا کہ اس عمر میں اتنی محنت کر کے کیا کرونگا۔
اب میری اور کتنی عمر رہ گئی کہ خوار ہوتا رہوں۔اب بزرگ نے اللہ تعالے سے دعا کی کہ یا باری تعالی اس بوڑھے کو امید دوبارہ واپس لوٹا دے۔ بزرگ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی اور بوڑھا تیزی سے اٹھا اور ہل تھام لیا اور کام کرنے لگا۔
بزرگ نے جب بوڑھے سے اچانک اٹھنے کی وجہ دریافت کی تو بوڑھا کہنے لگا معلوم نہیں ابھی اور کتنا عرصہ زندہ رہنا ہے کیوں نہ جتنی زندگی ہے بھرپور گزاری جاے۔ ملک میں غریب آدمی کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔
ہماری PTI کی حکومت بیان دینا چھوڑ دے وزیروں مشیروں کو ٹی وی پر آنے سے روک دے اور انہیں عملی کام پر لگا دے تاکہ حکومت کی کریڈیبلٹی بڑھے اور PTI کے ورکرز اور ووٹرز اور عام غریب آدمی میں امید کی نئی کرن پھوٹے اور وہ اپنی آنکھوں سے مسائل حل ہوتے دیکھیں اور ترقیاتی کاموں میں شریک ہوں۔
دکاندار کاروبار میں دلچسپی لیں ۔ملیں پیداوار بڑھائیں۔کسان کھیت میں زیادہ محنت کرے۔ نہ یہ کہ صرف بیانات سنیں۔ ورنہ تو پانچ سال ختم ہوتے پتہ نہیں چلنا ؎
وہی وفا ہے، وہی جفا ہے ۔۔
جہاں میں کچھ بھی نیا نہیں ہے ۔۔۔
محبتوں کا مہکتا موسم ۔۔
سنو ابھی تک گیا نہیں ہے ۔۔۔
گلزار احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر