یہ نکتہ نظر پارٹی کی قیادت کے مطابق ہے لیکن میرے نزدیک پی پی پی کی قیادت نے اس بل کے حوالے سے سی ای سی کے اجلاس کے بعد رضا ربانی کے زریعے سے جو پریس کانفرنس کی اور اس میں جو لائن آف ایکشن دی یا تو اُس پر پہلے سے زیادہ سوچ و بچار نہیں کیا گیا تھا یا وہ فیس سیونگ کا زریعہ تھا…..
کیا پاکستان پیپلزپارٹی نے سمجھوتہ کرلیا؟
آرمی ایکٹ بل میں ترمیم کے حوالے سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی جانب سے زبردست تنقیدی ردعمل آیا، اپوزیشن کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حکومتی بل کو سول بالادستی کا ایک اسٹینڈرڈ بنالیا جو بذات خود ایک بحث طلب معاملہ ہے کہ آیا واقعی یہ ایکٹ سول بالادستی کا کوئی معیار تھا یا نہیں تاہم اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے کارکنان کا اختلاف رائے ان کے باشعور ہونے کا ثبوت ہے، حکمران جماعت پی ٹی آئی کے کارکنان کے برعکس اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے اختلاف رائے کے ایک مثبت روئیے کا مظاہرہ کیا جس کی جتنی ستائش کی جائے وہ کم ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں میں تنقید کا عمل ہی ان کے سیاسی جماعت ہونے کی ایک دلیل ہوتا ہے۔
جب آرمی ایکٹ بل میں ترمیم کے بل کا معاملہ سامنے آیا تو مسلم لیگ نون نے فوری طور پر غیرمشروط حمایت کرکے مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت یا تجاویز کے امکان کو یکسر ختم کردیا، اگر مسلم لیگ نون غیرمشروط حمایت نہ کرتی اور اپوزیشن کے مشترکہ پلیٹ فارم سے بل کے حوالے سے حکومت سے بات کی جاتی تو بل میں اپوزیشن اپنی مرضی کی ترامیم کرواسکتی تھی تاہم مسلم لیگ نون کی غیرمشروط حمایت کے بعد یہ آپشن نہ رہا۔
بغیر کسی مشاورت کے مسلم لیگ نون کے اقدام کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی اپنے 55 ووٹوں کے ساتھ کسی بھی بات کو منوانے کی پوزیشن میں نہیں تھی، یہ کافی پیچیدہ صورت حال تھی، اگر پاکستان پیپلزپارٹی بل کی یکسر مخالفت کرتی تو یہ آئسولیشن میں جانے کے مترادف تھا کہ جس کے بعد پاکستان میں سول بالادستی کو منوانے کے تمام دروازے شاید بند ہوجاتے، پاکستان پیپلزپارٹی بغیر کسی پالیسی بحث کے بل کی حمایت بھی نہیں کرسکتی تھی چناچہ پی پی پی نے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلایا، جس میں بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں راجہ پرویز اشرف، فرحت اللہ بابر، رضا ربانی، شیری رحمان، شازیہ مری و دیگر پارلیمانی و قانون سازی کے امور کے ماہرین نے بیٹھ کر طویل مشاورت کی، یہ بھی ایک دلچسپ نکتہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے اس حوالے سے کوئی پالیسی بحث نہیں کی بلکہ بغیر کسی مشاورت کے غیرمشروط حمایت پر اکتفا کیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے قبل ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی تھی کہ بلاول بھٹو نے اسٹینڈ لے کر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے آرمی ایکٹ بل کو فوری منظور کرنے کے منصوبے کو ناکام بنادیا تھا، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون نے منصوبہ بنایا تھا کہ تین جنوری کو جمعے کے روز نماز سے قبل قومی اسمبلی اور نماز کے بعد سینیٹ سے بل کو منظور کروالیا جائے گا، یہ ایسی صورت حال تھی کہ کسی پارلیمنٹرین کو بل کی نقول تک فراہم نہیں کی گئی تھیں، اس موقع پر بلاول بھٹو کا کافی سخت ردعمل آیا اور انہوں نے پارلیمانی قواعد و ضوابط کی پیروی پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کو قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں بھی پیش کیا جائے، حکومتی مذاکراتی ٹیم کو بھی انہوں نے اپنا مؤقف واضح طور پر بتادیا اور حکومت پارلیمان کو بائی پاس نہ کرنے پر مجبور ہوئی اور قانون سازی کے سلسلے میں پارلیمانی قواعد و ضوابط پر عمل شروع ہوگیا۔
دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے حکومتی بل میں اپنی ترامیم پیش کرنے کا اعلان کردیا، سینیٹر رضا ربانی نے پارٹی کی سی ای سی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بتایا کہ حکومتی بل اور عدالتی احکامات میں بظاہر فرق نظر آرہا ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کے قانون ساز ماہرین نے بل میں تین ترامیم کی تجویز دی، پاکستان پیپلزپارٹی کی پہلی ترمیم یہ تھی کہ وزیراعظم کو پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کو سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی وجوہات ریکارڈ کرانا ہوں گی، دوسری ترمیم کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے پارلیمان کو وجوہات بتانے کے بعد ایکسٹینشن تو دی جاسکتی ہے مگر دوبارہ تعیناتی نہیں کی جاسکتی جبکہ تیسری ترمیم کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حکومتی بل میں سے توسیع کے معاملے کو عدالت میں چیلنج نہ کرنے کی شق بھی ختم کی جائے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی ترامیم قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروادیں، جس کا مطلب تھا کہ پارٹی ان ترامیم پر بحث کے لئے سنجیدہ ہے، یہ ترامیم قائمہ کمیٹی برائے دفاع میں بھی پیش کردی گئیں، جہاں حکومت نے ان پر غور کا عندیہ تھا جس کے بعد مذاکراتی دور شروع ہوا، بل منظور ہونے سے ایک دن قبل رات گئے تک پی پی پی اور حکومت میں مذاکرات ہوتے رہے، اگلے دن صبح پھر ایک مذاکراتی دور ہوا، بل منظور ہونے سے قبل حکومت کی جانب سے پرویز خٹک نے قومی اسمبلی کے فلور پر باقاعدہ درخواست کی کہ پاکستان پیپلزپارٹی اپنی ترامیم کو واپس لے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کارکنوں کی جماعت ہے، بلاول بھٹو نے کارکنان کے تحفظات پر کہا کہ ہماری گزشتہ نسلوں نے بھی جمہوریت کے لئے قربانی دی جبکہ اگلی نسلیں بھی جمہوریت کے لئے قربانی دیں گی، انہوں نے کارکنان سے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی آپ کے لئے ہی پارلیمان کو فعال بنانے کی جدوجہد کررہی ہے، بلاول بھٹو کے مطابق وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے جمہوریت پسندوں کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی امید ہے اور ایک ایسی صورت حال میں کہ جب نمبرز گیم ہمارے حق میں نہیں، پی پی پی نے اسٹینڈ لیا، اس پیچیدہ صورت حال میں کہ موجودہ پارلیمان ملکی تاریخ کی کمزور ترین پارلیمان ہے، قواعد و ضوابط پر عمل کرواکر بھی بھٹو شہید کے ادارے پارلیمان کو مضبوط کیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ جب پارلیمان کو آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے سبوتاژ کرنے کی کوشش ہوئی تو جیالوں کی پاکستان پیپلزپارٹی تھی کہ جس نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں سیاسی جماعتوں کو شاید دوسرے ممالک کی طرح وہ آزادیاں میسر نہیں کہ جو ان کا حق ہوتی ہیں، یہاں سیاسی جماعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے سیاسی جدوجہد کی اسپیس پیدا کرنا ہوتی ہے، ایک سیاسی جماعت ڈائیلاگ کرتی ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی نے کیا، ایک سیاسی جماعت اپنے فورم پر جدوجہد کرتی ہے جو پارلیمان میں پاکستان پیپلزپارٹی نے کیا، کسی دوسری سیاسی جماعت نے سوائے ہاں میں ہاں ملانے کے ایک لفظ تک نہیں کہا تاہم بدقسمتی سے ان جماعتوں پر تنقید کے بجائے سوال صرف پی پی پی سے کئے جارہے ہیں جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان جانتے ہیں کہ ملک میں حقیقی سیاسی جماعت صرف پاکستان پیپلزپارٹی ہے اور آرمی ایکٹ کے حوالے سے قانون سازی کے تناظر میں پی پی پی نے اپنے کردار سے یہ ثابت بھی کیا۔
تصادم کا راستہ اپنے تصور میں بہت سحرانگیز ہے تاہم حقیقت میں تصادم کا مطلب ایک فریق کے وجود کا خاتمہ ہوتا ہے، وہ دروازے بند کرلینا ہوتا ہے کہ جنہیں بمشکل کھولا گیا، قانون سازی ایک مسلسل عمل کا نام ہے، یقینا مستقبل میں آرمی ایکٹ میں مزید بہتریاں لائی جائیں گی اور بہتری کا سلسلہ تو جاری رہتا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ