فردوسی کے "شاہنامہ” کا انگریزی ترجمہ کرنے والے ایک مترجم کا کہنا ہے کہ ایرانیوں کا کوئی وطن نہیں کہ ان کی بستیاں شاعری کی دنیا میں آباد ہیں۔ رومانویت ،نقطہ سنجی اور مبالغہ ایرانی مزاج اور غزل میں مشترک ہے ۔ساسانیوں کی مسلمانوں سے شکست کے بعد فارسی ادبعالیہ کی زبان بن گئی اور عرب نژاد غزل کو فارسی کے شاعروں نے وہ بے مثال عروج بخشا جو اس دور کی سیاسی، ثقافتی اور علمی جدلیات اور زمانے کے episteme یا علمی حد کے تقاضے سے بڑھ کے تھا۔ خراسان میں جوان ہونے والی فارسی کو ایسا عروج ملا کہ فارسی زبان ہندوستانیوں اور ترکوں سمیت پورے خطے کی اشرافیہ کی زبان بن گئی ۔ آدم الشعراء ،ابو عبداللہ جعفر ابن محمد رودکی ، ابولقاسم فردوسی طوسی، شیخ فرید الدین عطار ،جلال الدین محمد رومی ، شمس الدین محمد حافظ اور دوسرے شعراء نے لگ بھگ چار سو سالوں میں فارسی زبان کو چار چاند لگا دئیے۔بارھویں اور تیرھویں صدی میں فتنہء تاتار نے ستم ڈھایا تو غزل پہلے سے زیادہ گداز ہو گئی اور تصوف کے ملاپ سے وہ معنی آفرینی پیدا ہوئی کہ غزل، محبت کے مضامین کے ساتھ اسرار_ ازل اور انسان کے روحانی اور مادی دکھوں اور اسرارورموز کا ذریعہء اظہار بن کر شاعری کی مقبولعام صنف بن گئی.رومی کے "دیوان شمس” کا شعر دیکھئے کہ غزل پہ گفتگو رومی کے جوش_ محبت کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہتی ہے :
صورتگر نقاشم ہر لحظہ بتی سازم
و آنگہ ہمہ بتہارا در پیش تو بگدازم
( میں وہ مصور ہوں جو ہر لمحہ خوب صورت نقش بناتا ہے اور ترے حضور انھیں پگھلا دیتا ہے)
ہندوستان میں غزل، بیدل سے میروغالب تک آئی۔میر نے اپنے عہد کے المیاتی شعور کو جمالیات سے جوڑ کر زبان و بیان کو غم آشنا کیا اور احساس و جذبے سے معنی پیدا کئے:
جائے غربت ہے خاک دان_جہاں
تو کہاں سر اٹھائے جاتا ہے
دیکھ سیلاب اس بیاباں کا
کیسا سر کو جھکائے جاتا ہے
اسداللہ خاں غالب کہ اردو غزل کے باوا آدم ہیں، تخیل کے زور پہ منظر تخلیق کرتے ہیں ، پیچیدہ امیجز بناتے ہیں اور ان کو نئے معنی دے دیتے ہیں ۔کاغذی پیرہن پہنے ایک فریادی وہ ہمارے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں اور آنکھ سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ذہنی وظیفے کو معطل کر کے اسے دیکھے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر_ تصویر کا
روایت کے طویل سفر کو معطل کرکے ہم اپنے عہد کے روایت شکن شاعر، ظفر اقبال کا درشن کرتے ہیں۔روشن دماغ اور روشن آنکھوں والے مستنصر حسین تارڑ جنھوں نے "جدید منطق الطیر ” جیسا شاہکار تخلیق کیا ، ظفر اقبال کو "اہرام_ شاعری” کہتے ہیں ۔ اک ایسا اہرام جس کی بلندی اور وسعت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ یہ 18 جون، 2019 کا قدرے گرم مگر شانت دن تھا۔ شاعری کے بادشاہ سے ملنا ، اہرام شاعری کا طواف کرنا در اصل شعر کی تاریخ اور تہذیب سے ملنا تھا!!” موہوم کی مہک” کے شاعر اور بقول ظفر اقبال ” نظم کے بے تاج بادشاہ”، ابرار احمد نے مجھے گھر سے لیا اور کچھ ہی دیر میں ابرار جیسے خوب صورت دوست کے ساتھ بیدیاں روڈ پر ظفر اقبال کے گھر کے صحن میں کھڑے تھے۔بادشاہ کے دربان سے عرض گزاری اور چند ساعتوں میں ہم ان کی بارگاہ میں حاضر تھے۔وہ شلوار کرتے میں ملبوس ایک کرسی پر تمکنت کے ساتھ بیٹھے تھے ۔مدہم آواز میں ٹی وی چل رہا تھا اور ریموٹ ان کے ساتھ دھرا تھا۔شاید یہ ان کا معمول ہو کہ وہ اپنے کالم ” دال دلیہ” کے لئے سرخیوں پہ متن جمانے کو ہر خبر پر نظر رکھتے ہوں۔وہ تپاک سے ملے اور معمول کے حال احوال کے بعد اوکاڑہ کے خالص دودھ کا ملک شیک پلایا جس کا ذائقہ اب تک دہن میں ہے اور ہم اپنے عہد کے دو بڑے شاعروں کی گفتگو کے گواہ ہوئے اورکم مائیگی کے احساس کے ساتھ سوال بھی کرتے رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے والدین اور ان کی شریکِ حیات شاعری کے حق میں نہ تھے لیکن شاعری نے انھیں منتخب کر لیا۔ ان کی modesty اور wit ملاحظہ کیجئے :
ظفر ہم کیا ہماری شاعری کیا
ابھی تو ہاتھ سیدھے کر رہا ہوں
گفتگو کے دوران ان کے فرزند آفتاب اقبال آگئے۔ ان سے پرانی یاد اللہ ہے جب ملک رب نواز اور رائو تحسین کے ساتھ ان سے ملاقات رہی پھر سب اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے۔ آفتاب اقبال میڈیا کا کامیاب اور معتبر نام ہیں اور ایک اچھے بیٹے کی طرح باپ کی خدمت کرتے ہیں۔آفتاب اقبال سے پرانے دوستوں کے خوشگوار تذکرے کے بعد دوبارہ سلسلہء کلام شروع ہوا تو ظفر اقبال کے ایک جملے نے چونکا دیا کہ ان کی شاعری میں غالب کی سطح کے اشعار غالب سے ساٹھ ستر گنا زیادہ ہیں۔ہم ظفر اقبال کے اس بیان کو شاعرانہ تعلی تو نہیں سمجھتے لیکن بہر حال ان کا یہ دعوی حال اور مستقبل کے نقادوں کے لئے بحث کا موضوع رہے گا!غالب پر سرسری سی گفتگو کے بعد انھوں نے اپنا شعر سنایا جس میں ان کے مزاج کی modesty جھلکتی ہے۔ مجھے شعر تو یاد نہیں رہا لیکن اس کا مفہوم یہ تھا کہ غالب کے ساتھ میرا جھگڑا تو نہیں کہ
میں ہر طرح سے اپنی اوقات جانتا ہوں!!
ابرار احمد شاعر ہونے کے ساتھ،تنقید کے دقیقہ شناس ہیں۔ان سے بارہا ظفر اقبال کی شاعری پہ بات ہوئی ہے اور ظفر اقبال کی شاعری کی قرات تب سے معمول ہے جب یونیورسٹی کے زمانے میں دھوپ چبھنے پہ سویٹر اتارنے کی خواہش بے باک ہو جاتی تھی:
میں اتنا بدمعاش نہیں، یعنی کھل کے بیٹھ
چبھنے لگی ہے دھوپ سویٹر اتار دے
غزل کا ایک مطلب عورتوں سے باتیں کرنا ہے گویا غزل کے موضوعات میں رومانویت جزو_ اول رہی ہے۔ ظفر اقبال نے غزل کی تنگنائے کو نظم سی وسعت بخشی ہے اور ہر طرح کے مضامین بہت ہی خوب صورتی سے غزل میں باندھے ہیں۔دوسری اہم بات ان کی شاعری کی یہ ہے کہ مقامی زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور یوں اردو زبان کو امیر تر کرتے چلے جاتے ہیں ۔ تیسری بات ان کی شاعری کی تازگی ہے۔انھوں نے کہا کہ شعر اگر تازہ نہیں تو کچھ نہیں۔وہ اشعار میں معنی اور مضامین کی جگہ زبان اور تازگی کو فوقیت دینے کے قائل ہیں۔ ایسا با کمال شاعر ہے جس نے غزل کے موضوعات اور زبان دونوں کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ شاعری کی تاریخ میں شاید ہی کسی شاعر نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہو! چوتھی صفت،ان کی پر گوئی ہے بلاشبہ ضخامت میں انھوں نے فردوسی سے زیادہ لکھا ہے اور ان کی غزلوں کی تعداد رومی اور میر سے زیادہ ہوگی۔ اس بارے میں انھوں نے قدرے افسردگی سے کہا:” میں نے ساری عمر لگا کے لکھا ہیاسے پڑھیگا کون ؟”۔پانچویں outstanding چیز ان کی شاعری میں wit کی فراوانی ہے۔ وہ کمال فن کاری اور ہوشیاری سے شعر میں لطف اور لطافت پیدا کرتے چلے جاتے ہیں :
وہ روشنی میں بھی ہوتا نہیں کہیں موجود
جو رنگ ماہ ملاقات سے نکلتا ہے
—————————–
پوری طرح وہ ہاتھ میں آیا نہیں کبھی
وہ حسن بے مثال بھی آدھا سراب ہے
اور ۔۔۔
وہاں مقام تو رونے کا تھا مگر اے دوست
ترے فراق میں ہم کو ہنسی بہت آئی
آخر میں، ہماری ڈائری سے ظفر اقبال کے چند منتخب اشعار، مشت_ نمونہ از خروارے!! حالانکہ ان کی شاعری کی ڈھیری کی ایک مشت سے کئی دیوان مرتب ہوں۔ لہذا چند دانے :
یوں ہے کہ یہاں نام و نشاں تک نہیں تیرا
اور تجھ سے بھری رہتی ہے تنہائی ہماری
—————————–
رات خالی ہی رہے گی مرے چاروں جانب
اور یہ کمرہ ترے خواب سے بھر جائے گا
—————————–
میں سوچتا رہا دل سب کا اپنا اپنا ہے
میں دیکھتا رہا رستہ بدلنے والوں کو
—————————–
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
—————————–
محبت سر بسر نقصان تھا میرا ظفر اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا مگر ہونے دیا میں نے
—————————–
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں ظفر
اور اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے
—————————–
لفظ پتوں کی طرح اڑتے رہے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف
—————————–
اور یہ شعر ظفر صاحب نے شرارتی انداز میں سنایا اور ساتھ ہی ایک دلآویز مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا: "کہ یہ کوئی شرافت ہے”:
اب کے اس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
پاوں پہ پاوں جو رکھنا تو دبا بھی دینا
—————————–
ظفر اقبال کی حس_مزاح کمال کی ہے ۔میں نے ان کا ایک شعر غلط پڑھا تو انھوں نے شعر درست کیا اور کہا کہ ویسے آپ شعر میں ترمیم کر سکتے ہے۔ آج میں ان کا طنزا دیا ہوا اختیار استعمال کرتا ہوں، اور ایک شعر دعا کی صورت ان نذر کرتا ہوں:
کوئی رکتا ہوا دریا ” ترے” قدموں میں کہیں
کوئی جھکتا ہوا سورج "تری” پیشانی پر
نوٹ: گذشتہ ہفتے کے ایک کالم میں جناب ظفر اقبال نے ایک شعر میں غلطی کی نشاندہی کی تھی۔ شعر جیسے کالم میں تھا دوبارہ لکھ دیتا ہوں:
حیدریم قلندرم مستم
بندہ مرتضی علی ہستم
ڈاکٹر ظفراللہ خاں نے اصفہان اور مروند کے فاصلے کا ذکر کیا ہے۔ مروند ایران کے صوبے مشرقی آذربائیجان میں ہے اور اصفہان سے دور ہے۔دونوں احباب کی توجہ کا شکریہ۔
اسداللہ خاں غالب کہ اردو غزل کے باوا آدم ہیں، تخیل کے زور پہ منظر تخلیق کرتے ہیں ، پیچیدہ امیجز بناتے ہیں اور ان کو نئے معنی دے دیتے ہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ