ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد کی جانب سے جاری ہونے ایکخبر ذریعے پنجاب حکومت کے حکم پر نافذ کیے جانے والے دفعہ 144 کی تشریح اور وضاحت کچھ اس طرح بیان کی گئی ۔”گنے کے کرشنگ سیزن کو شفاف بنانے کے لیے پنجاب حکومت نے دفعہ 144 نافذکردی ۔رحیم یار خان میں ڈپٹی کمشنرز کو مڈل مین، گنے کے وزن اور رقم کی کٹوتی پر کاروائی کرنے کی ہدایات نے کی غیرقانونی خریداری اور مڈل مینکے خلاف کاروائی ہوگی۔
شوگرملز کی جانب سے رقم اور وزن کی کٹوتی پر دفعہ144 کے تحت کاروائی ہوگی۔کسانوں کو شوگرملز کی جانب سے بروقت سی پی آرزنہ دینے پر بھی دفعہ 144 کے تحت کاروائی ہوگی۔چاروں تحصیلوں کے اسسٹنٹکمشنرز فوری عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔“
محترم قارئین کرام ،، میری آج کی ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ وطن عزیز میں احساس پروگرام شروع کرنے اور اس پروگرام کے تحت غریبوں کو مفت کھانے کھلانے والے حکمرانوں نے کسانوں اور ان کے بچوں سے روٹی کا نوالہ چھین کر شوگر ملز مالکان کی تجوریاں اور کبھی نہ بھرنے پیٹ بھرنے کے لیے دفعہ 144لگائی ہے. اس کی وضاحت بھی آپ کے ساتھ آگے شیئر کرتا ہوں. گنے کے کرشنگ سیزن کے لیے دفعہ 144کی ضرورت کیوںپیش آئی ۔یہ دفعہ کس کے کہنے پر اور کیوں لگائی گئی ۔اس کا فائدہ کس کسکو ہے ۔کسانوں کو اس سے کیا نقصان ہے۔ان سب سوالوں کے جواب سے پہلے ضلع
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے کسان رہنماوں کا ردعمل جاننا بہت ضروریہے ۔وہ اس بارے کیا کہتے ہیں۔
”کسان بچاؤ تحریک کے چیئرمین چودھری محمد یاسین، پاکستان کسان اتحاد کےڈسٹرکٹ آرگنائزر جام ایم ڈی گانگا، ضلعی صدر ملک اللہ نوازمانک، صمدسلطان بندیشہ ، آل پاکستان کسان فاؤنڈیشن کے چیئرمین سید محمود الحقبخاری،ایگری فورم پاکستان کے سیف اللہ نیازی، جام اعظم انیس، پروگریسو
گروؤرز ایسوسی ایشن کے چودھری جمیل ناصر، راؤ غلام فرید ،کسان اتحادکے عبدالصمد چودھری،زاہد شریف مہار وغیرہ نے ایک ہنگامی میٹنگ کے بعدصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بااثر ترین شوگر ملز مالکان کے کہنےپر گنا خریداری کے کنڈے بند کروانا شوگر ملز کی اجارہ داری کو تحفظ اور
مزید تقویت و طاقت فراہم کرنا ہے.
ضلعی انتظامیہ کا شوگر ملز کا معاون ومددگار بن کر میدان میں اترنا کسانوں کے ساتھ ایک اور زیادتی ہوگی.انتظامیہ کا یہ عمل کسانوں کی کھال اتار کر شوگر ملز مالکان کو پیش کرنےکے مترادف ہوگا .کنڈے بند کروا کر کسان کو زبردستی مجبور کیا جا رہا ہےکہ وہ زیادہ ریٹ دینے والے کنڈوں پر اپنا گنا فروخت کرنے کی بجائے شوگرملز کو سستے داموں فروخت کریں.آج قانونی خریداری اور غیر قانونی خریداریکا تصور پیش کرنے والے اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب کسان لٹ رہا ہوتا ہے.
انتظامیہ قانون اور شوگر ایکٹ کو پڑھے 190روپے کم ازکم امدادی قیمت ہے.
کسی کی جانب سے کسانوں سے زیادہ ریٹ پر گنے خریدنے پر قطعا کوئی پابندینہیں ہے. حکمران پہلے ہی کسانوں کو گنے کے ریٹ کا حق 300روپے من نہ دے کرظلم و زیادتی اور نا انصافی کیے ہوئے ہیں. ضلع رحیم یار خان میں گناخریداری کے کنڈوں کی بندش تحریک انصاف کے بااثر حکومتی اور جماعتی لوگوںکی فرمائش پر کی جا رہی ہے. ہم کسان اس استحصالی اور کسان کش فیصلے کومسترد کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ ایسا کوئی عمل نہ کرےجس میں پہلے ہی سے نقصان کا شکار کسانوں کا مزید نقصان ہو.
درایں اثناءاس موقع پر موجود کسان دوست جمیعت علماء اسلام کے رہنما علامہعبدالرؤف نے کسان رہنماؤں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ محضشوگر ملز کو نوازنے کے لیے گنا خریداری کے کنڈے بند کروانا کسانوں کاسراسر معاشی قتل اور ظلم ہے. یہ کسانوں کو اپنا گنا کم ریٹس پر صرف شوگر
ملز کو ہی فروخت کرنے پر مجبور کرنے کا حربہ اور زبردستی کی کوششہے.کھربوں پتی سرمایہ داروں کے لیےانتظامیہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئیے. اسبارے کسان جو بھی لائحہ عمل بنائیں ہم کسانوں کا ساتھ دیں گے.
جام ایم ڈیگانگا نے مزید کہا کہ اگر بلوچستان سے رحیم یار خان آنے والی دھان چاولاور سندھ سے آنے والی کپاس جائز اور قانونی ہے تو پھر رحیم یار خان سےسندھ جانے والا گنا کیونکر غیر قانونی ہے.شوگر ملز کی فرمائش پر سندھ کےلیے خریداری کرنے والے کنڈوں کے خلاف آپریشن اور کریک ڈاون درست نہہوگا. کسان مقامی شوگر ملوں کو گنے کی سپلائی روکنے کے لیے گنے کی کٹائیاحتجاجا بند کر سکتے ہیں.چودھری محمد یسین نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر شوگر ملز
کا نمائندہ بن کر فیصلہ کرنے کی بجائے مظلوم کسانوں کا بھی خیال کریں.
موجودہ حالات میں دفعہ 144کی کوئی ضرورت نہ ہے. یہ صرف ضلع رحیم یار خانکے کسانوں کو لوٹنے کا پروگرام ہے۔“
محترم قارئین کرام،،ایک زرعی ملک میں زراعت اور کسانوں کے ساتھ کیا کیاجا رہا ہے ۔ٹیکسٹائل ،شوگراور کچھ دیگرمافیاز حکمرانوں اور اداروں پر کسقدر حاوی اور ااثر انداز ہو چکے ہیں کہ جب اور جیسے چاہتے ہیں ویسے اپنی مرضی کے فیصلے جاری کروا لیتے ہیں پھر ان پر عمل درآمد کے لیے بھی فوریاور تیز ترین کاروائیاں شروع ہو جا تی ہیں۔دوسری جانب حق داروں کی شنوائیتک نہیں ہوتی ،ان کی فریاد ، ارداس ، اپیل دفتر دفتر کے چکروں میں چکراتیرہتی ہے۔کسان گذشتہ کئی سال سے گنے کا مٹھاس ریکوری کے مطابق ریٹ مانگتے
پھرتے ہیں۔ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود بھی وہ سالہا سال سے اپنے حق سےمحروم ہیں ۔مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے پیداواری اخراجات میں بے پناہاضافہ ہو جانے سے کسان گذشتہ چھ سال سے گنے کے ریٹ میں اضافے کا مطالبے
کرتے چلے آ رہے ہیں۔گنے کا ریٹ 180روپے من سے بڑھا کر کم از کم 250روپےمن کیا جائے ۔انہوں نے باقاعدہ گنے کی فصل کے جملہ اخراجات اور آمدنی کاگوشوارہ بنا کر بھی پیش کیا ہے کہ اس سال ان کے ایک من گنے پر 250روپے
اخراجات ہیں ۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں نے گنے کی قیمتمیں صرف اور صرف دس روپے فی من کا اضافہ کرکے کسانوں کو جائز حق دینے کیبجائے خیرات دے کر ٹرخا دیا ہے۔گنے کا ریٹ 190روپے من کیا گیا۔
سرمایہ دار صنعت کاروں کے نہ جانے پیٹ کب بھریں گے۔ان کے استحصالی حربےکب، کہاں اور کیسے رکیں گے۔اندھی حرص و ہوس کی بیماری سے کب نجات ملےگی۔اس سال ماضی کی نسبت گنے کی کاشت کم تھی ۔پھر مختلف وجوہات کی سببپیداوار میں بھی خاصی کمی سامنے آئی ہے۔شوگر ملوں کی ڈیمانڈ کی نسبت گناخاصا کم ہے ۔جس کی وجہ سے شوگر ملوں کے درمیان اندرونی مقابلہ کی وجہ سےگنے کی اوپن مارکیٹ میں دن بدن اضافہ دیکھنے کو ملا۔گنے کی خرید 190روپےمن کی بجائے 230روپے من تک جا پہنچی ہے جس میں آٓنے والے دنوں میں مزیداضافے کا یقینی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ضلع رحیم یار خان سے سندھ کیشوگر ملوں کی جانب سے زیادہ ریٹ پرگنے کی خریداری کی وجہ سے مقامی شوگر
ملوں کو گنے کی سپلائی کم ہونا شروع ہو گئی۔جس سے تحریک انصاف کے مرکزیرہنما جہانگیر خان ترین کی شوگر ملیں زیادہ متاثر ہونے لگیں ۔دوسری جانبوفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جوان بخت
کی آر وائی کے شوگر ملز کے ایریا سے حمزہ شوگر ملز ،اشرف شوگر ملز اوراتحاد شوگر ملز نے خفیہ اضافی ریٹ پر گنے کی خریداری بڑھا دی ۔جس کی وجہسے اس مختصر سے عرصے میںگنے کی سپلائی میں شدید کمی کی وجہ سے کم و بیش دوتین بار رکن آباد کی شوگر ملز کورکناپڑا۔اندرونی ذرائع کی اطلاعات یہیہیں کہ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جوان بخت اور سردار نصر اللہ خاندریشک نے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزادر سے کہہ کر خصوصی طور پر
دفعہ 144نافذ کروائی ہے۔کیونکہ سردار نصر اللہ خان دریشک کی کوٹ مٹھنشریف کے قریب واقع شوگر ملز کا گنے بھی دوسری شوگر ملز نے کھینچنا شروعکر دیا ہے۔دفعہ 144کا مقصد صرف اور صرف کنڈے بند کروانا ہے ۔
کیونکہ زیادہریٹس پر خریداری کے عمل میں ان کنڈاجات کا بڑا کردار ہے۔یہی گنا خریدکرکے سندھ کی شوگر ملوں کو سپلائی کرتے ہیں۔یاد رکھیں بلکہ نوٹ فرمالیںکہ ضلع رحیم یار خان کے علاوہ کہیں پر بھی کوئی کریک ڈاون نہیں ہوگا۔اس
سال گنے کے کرشنگ سیزن میں پرمٹ ،کٹوتی ،وزن ٹریفک سمیت کوئی بھی مسئلہسامنے نہیں آیا ۔کسی سٹیک ہولڈر نے اجتماعی طورپر دفعہ 144کا مطالبہ بھینہیں کیا۔پھر یہ کس کے کہنے پر اور کیوں لگائی گئی ہے ۔جہاں تک کسانوں کا
تعلق ہے وہ تو اسے اپنے معاشی قتل قرار دے رہے ہیں۔
حکمرانو خدارا شوگر مافیا کے نرغے سے نکلیں۔خود بھی معاشی ہائی جیکروںسے بچیں اور مظلوم کسانوں کو بھی معاشی درندوں سے بچائیں۔ملک کو خوشحالکرنا ہے تو زراعت کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔کسانوں کے تمام جائز
مسائل حال کریں۔آئی ایم ایف یا دوسری عالمی ساہوکار اداروں کی پالیسیوںپر چلنے کی بجائے اپنے وطن کے زمینی حقائق اور حالات اور ضروریات کےمطابق اپنی پالیسیاں بنائیں۔
اپنی زراعت کی بقا اور کسان کی خوشحالی کاسوچینں۔قومی خوشحالی کے باقی سارے راستے یہیں سے ہو کر گزرتے ہیں ۔نئےپاکستان کے بارے میں عوام یہ سوچنے اور کہنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔
نیا پاکستان کا مطلب کیا
ملک شوگر مافیا کے نرغے میں
عوام شوگر کی لپیٹ میں
کسان کنگال
پیسہ ملز مالک کی جیب میں
یہ ہے نیا پاکستان
نہ تیرا نہ میرا
خزانہ خالی ملک گرین
عوام
بے حس لاچار مسکین
کرپشن کا معیار
تیز تر تیز ترین
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر