’’ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ‘‘ کے مصداق شہر اور قصبے اجڑتے اور بستے رہتے ہیں ۔ حتیٰ کہ صدیوں کے عمل سے نئی تہذیبوں کا جنم اور قدیم تہذیبوں کا خاتمہ بھی تاریخ کا عمل ہے ۔
مگر کچھ شہر اور کچھ تہذیبیں سزا کے طور پر مٹا دی جاتی ہیں ۔ اس کی زندہ مثال جھنگ ہے ، جھنگ ایک شہر نہیں ایک بہت بڑی تہذیب کا نام ہے۔ لائل پور جھنگ کی تحصیل تھی ، آج جھنگ کہاں اور لائل پور ( فیصل آباد) کہاں ہے ؟
ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ ’’ کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے ‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ جھنگ کے مختلف شہروںاور قصبوں میں پنڈی بھٹیاں ، موچی والا، روئی بیلنا، باغ، رستم سرکانہ ،شور کوٹ، احمد پور سیال ، گڑھ مہاراجہ ، شاہین آباد، سلانوالی ،کوٹ عیسیٰ شاہ ، شاہ جیونہ ، جنڈ بھروانہ، تریموں حویلی ، اٹھارہ ہزاری ، بھروانہ وغیرہ کی اپنی اپنی تاریخ ہے مگر ان میں سے چنیوٹ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔
چنیوٹ کے تاریخی مقامات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔جغرافیے کو دیکھیں تو دریائے چناب کے کنارے واقع ہے ۔
چنیوٹ کی شیخ برادری کی ملکی صنعتی ترقی میں بہت خدمات ہیں ۔ کراچی میں جہاں تجارت و صنعت میں جہاں میمن برادری کا نام ہے وہاں چنیوٹ کی شیخ برادری کا بہت بڑا نام ہے۔ چنیوٹ میں لکڑ کا کام بہت مشہور ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جھنگ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ ہی سے یہ علاقہ انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔ جھنگ مختلف ادوار میں بنا اور اجڑا۔ مشہور چینی سیاح ہیوان سوانگ 641ء میں ہندوستان کے مختلف علاقے کی سیاحت کرتے ہوئے جھنگ آیا۔ وہ یہاں سے بھکر جانا چاہتا تھا لیکن تریموں کے مقام پر زبردست طغیانی کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا۔
اس نے اپنے سفر نامے میں میں اس مقام کا نام ’’جہانگ‘‘ لکھا ۔ علاوہ ازیں بعض مورخین نے سکندر اعظم کے حملہ ملتان اور شورکوٹ کے تفصیلی ذکر میں جھانگ کا بھی تذکرہ کیا ۔ اور لکھا ہے کہ سکندر کا مقابلہ کرنے کیلئے جھانگ کا ایک جنگجو قبیلہ مل مسلح ہو کرآیا تھا اور سکندر اعظم ان کے اچانک حملے کی تاب نہ لا سکا ۔
712ء میں جب محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا تھا تو مسلمان عسا کر شور کوٹ تک فتح مندی کا پرچم لہراتے ہوئے پہنچ گئے۔ 1175ء میں شہاب الدین غوری نے جھنگ فتح کیا ۔ 1218ء میں ناصر الدین قباچہ یہاں کا عامل مقرر ہوا ۔
مغل حکمران اکبر کے دور میں جھنگ اور اس کی آس پاس کی ریاستیں صوبہ ملتان کا حصہ رہیں ، بعد ازاں سکھوں کے قبضے میں رہا ۔1849ء میں ملتان پر انگریزوں کا تسلط قائم ہو گیا تو یہی ضلع براہ راست برطانوی حکومت کے تحت آ گیا ۔ انگریز دور کے بعد جھنگ کا زوال شروع ہوا ، چونکہ جھنگ کے بادشاہ احمد خان سیال نے انگریز کی مزاحمت کی اور احمد خان کھرل انگریزوں سے لڑے ۔
اسی جرم کی بناء پر جھنگ پر تنزلی کی لکیر پھیر دی گئی جو کہ آج تک موجود ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جھنگ شہر اور جھنگ مگھیانہ دو شہر تھے جن کے درمیان دو ڈھائی میل کا فاصلہ تھا۔
صدر ایوب کے دور میں مگھیانہ کو جھنگ صدر کہا جانے لگا ، جو ضلع کا صدر مقام ہے۔ یہاں تمام سرکاری دفاتر واقع ہیں ۔ ضلع کچہری ، ضلع کونسل ، میونسپل کمیٹی ،کمپنی باغ مگھیانہ کو جہانگیر کے عہد میں میگھا نامی ایک سیال نے اس شہر کو آباد کیا ، جو اصل میں ایک چرواہا تھا ۔
حاکم جھنگ نواب غازی خان سے گزارے کے لئے یہ جاگیر حاصل کی تھی ، بستی بسائی جو اسی کے نام پر مگھیانہ مشہور ہوئی ۔ اس شہر میں دروازے بھی بنائے گئے ،ایک دروازہ لیلیٰ مجنوں کہلاتا ہے۔ ایک کھتیانوالہ بازار، ایک جھنگ بازار ،ایک ریل بازار ہے۔ یہ شہر ان چار دروازوں میں بند تھا ۔
اب بھی ان درروازوں کے آثار موجود ہیں ۔ رومانوی داستان کی ہیر کا مزار بھی یہاں ہے ۔ سرائیکی زبان میں جھنگ کے دامودر داس نے ہیر رانجھا کا منظوم قصہ لکھا جو کہ ایم اے سرائیکی کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔
موجودہ ضلع جھنگ کا رقبہ 3401 مربع میل ہے اور آبادی قریباً 20 لاکھ ہے۔ اس ضلع کے شمال مغرب میں ضلع سرگودھا اور ضلع خوشاب ، مغرب میں ضلع بھکر اور ضلع لیہ واقع ہیں ۔ جنوب میں ضلع ملتان ، مظفر گڑھ کا علاقہ ہے۔ شمال مشرق میں اس ضلع کی حد ضلع گوجرانوالہ سے ملتی ہے ۔ مشرق میں فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع واقع ہیں ۔ضلع کا بہت سارا حصہ میدانی ہے۔
یہ میدان دریائے جہلم اور دریائے چناب کی لائی ہوئی زرخیز مٹی سے بنا ہوا ہے۔ مشرق میں واقع میدانی علاقے کو ’’ ساندل بار ‘‘ کہتے ہیں ۔ ساندل بار کے لوگ اپنی تہذیب، ثقافت اور زبان سے محبت کرتے ہیں ۔ اس علاقے میںگلوکار منصور ملنگی جیسے نامور لوگ پیدا ہوئے۔
ساندل بار کے شمالی حصے کی زمین ہموار ہے، مگر جنوبی حصہ ریتلا ہے۔ دریائے چناب کے مغرب کا میدانی علاقہ زیادہ ہموار ہے۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے آس پاس کے علاقے نچان ہے، اسے ’’ ہٹھار ‘‘ کہتے ہیں ۔
دریائے جہلم کے مغرب میں اس علاقے کو ’’ کچھی کا علاقہ ‘‘ کہتے ہیں ۔ کچھی کے مغرب میں ریتلا علاقہ شروع ہوتاہے ۔ اسے ’’ تھل ‘‘ کہتے ہیں ۔چولستان کی طرح صحرائے تھل کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے ۔
صحرائے تھل سرائیکی وسیب کے اضلاع میانوالی ، جھنگ، بھکر ، لیہ ، خوشاب اور مظفر گڑھ میں آتا ہے ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ دو دریاؤں کے درمیان جو علاقہ آئے اسے سرائیکی میں ’’ کچھی ‘‘ کہتے ہیں ضلع جھنگ میں سے دو بڑے دریائے یعنی چناب اور جہلم گزرتے ہیں ۔
ان دریاؤں سے نہر لوئر چناب ضلع گوجرانوالہ میںخانکی کے مقام پر دریائے چناب سے نکالی گئی ہے اور ضلع گوجرانوالہ، ضلع فیصل آباد اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی زمینوں کو سیراب کرتی ہوئی ضلع جھنگ میں داخل ہوتی ہے۔
اس نہر کی شاخ( جھنگ برانچ ) ضلع کے جنوب مشرقی حصے کو سیراب کرتی ہے ۔ نہر لوئر جہلم رسول ( ضلع گجرات ) کے مقام سے نکالی گئی ہے۔ اس کی دو شاخوں ’’ کھادر ‘‘ اور ’’ میشن ‘‘ سے ضلع جھنگ کا کچھ شمالی حصہ سیراب ہوتا ہے۔
دریائے چناب پر تریموں کے مقام پر بند باندھ کر دو بڑی نہریں نکالی گئی ہیں ۔ دریا کے مگربی کنارے سے نہر رنگ پور اور مشرقی کنارے سے تریموں سدھنائی رابطہ نہر ، یہ نہریں غریب کاشتکاروں کو فائدہ کم اور انگریزوں کے وفادار جاگیرداروں کو زیادہ فائدہ دیا ۔
انگریزوں نے اپنے حاشیہ برداروں کو جاگیریں ، رقبے اور عہدے دیئے مگر جن لوگوں نے انگریزوں کو پسند نہ کیا ان کو کچل کر رکھ دیا گیا ۔ انگریز کے وفادار سردار اور معزز اور حملہ آوروں کے مخالف جانگلی بنا دیئے گئے ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر