پولیس اصلاحات پنجاب میں ہوں یا نہ ہوں. کسی اور ضلع میں تبدیلی آئے یا نہ آئے. ضلع رحیم یارخان میں ڈی پی او نے تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے. پولیس میں اندرونی اور بیرونی طور پر خاصی تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے.غفلت کے مرتکب اور کرپٹ اہکاروں کی معطلیوں کے بعد خاص اور عام اور جُٹی دار کا سسٹم ختم کرنے کے لیے ڈی پی او منتظر مہدی نے ضلع بھر کے تھانوں کے محرران تبدیل کر دیئےہیں.
ڈی پی او منتظر مہدی نے تھانوں کے نئے محرران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شخصیات کی بجائے محکمہ اور فرائض سے وفاداری نبھائیں۔ڈی پی او منتظر مہدی کے ضلع بھر کے اہکاروں کو اس واضح پیغام سے اور ان کے اس اقدام سے یقینا مثبت اثرات مرتب ہونے کی قومی امید ہے.
ماضی میں طویل عرصہ سے ہم یہ دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ضلع رحیم یارخان میں ایک روایت چلی آ رہی تھی کہ ہر ایس ایچ او اپنی پسند کا محرر تعینات کرواتا اور جب اس کا تبادلہ دوسرے تھانے پر ہوتا تو وہ محرر اور اپنے کچھ کار خاص اہلکاروں کو بھی ساتھ ٹرانسفر کروا لیتا تھا۔اس صورتحال کو مشاہدہ میں آنے پر ڈی پی او منتظر مہدی کا اس روایتی کلچر کو ختم کرنے کیلئے فیصلہ نہایت ہی خوش آئند ہے.
آئندہ کوئی بھی پولیس اہکار یا محرر کسی بھی ایس ایچ او یا دیگر آفیسر کا خاص یا عام نہیں ہو گا بلکہ پولیس ایک فورس اور یونٹ کی طرح کام کرے گی جس میں ہر اہلکار ہر آفیسر کے ساتھ فرائض کی ادائیگی کو یقینی بنائے گا اس سلسلہ میں انہوں نے گذشتہ روز ضلع کے 27تھانوں میں تعینات ایس اوز کے خاص وفادار محرران کو تبدیل کر دیا.
جس میں ہیڈ کانسٹیبل محمد عمران کو محرر تھانہ اے ڈویژن،رفیق اللہ تھانہ بی ڈویژن،فرحت حسین تھانہ سی ڈویژن، عبدالجبار تھانہ آب حیات، ناصر محمود تھانہ ایئر پورٹ،زبیر بشیر تھانہ صدر رحیم یارخان،محمد اسلم تھانہ کوٹ سمابہ،عبدالرحمن تھانہ رکن پور،عبدالحمید تھانہ آباد پور، خالد محمود تھانہ اقبال آباد، شاہ زمان تھانہ منٹھار، افتخار احمدسٹی صادق آباد،محمد سلیم صدر صادق آباد،محمد ناصر تھانہ کوٹ سبزل،ظفر اقبال تھانہ احمد پور لمہ، محمد جہانگیر تھانہ بھونگ،احسان احمد تھانہ ماچھکہ،عبدالقیوم سٹی خان پور،محمد نعیم ناصر صدر خان پور، شاہد حسین تھانہ اسلام گڑھ،ریاض احمد تھانہ سہجہ، نصیر احمد تھانہ ظاہر پیر،قمر نواز تھانہ لیاقت پور، محمد اکمل شیدانی شریف،ریاض احمد تبسم شہید،مدثر احمد پکا لاڑاں اور ہیڈ کانسٹیبل ابو بکر کو محرر تھانہ ترنڈہ محمد پناہ تعینات کر دیا گیا ہے۔
محترم قارئین کرام،،انچارچ تھانے دار اور ہیڈ حوالدار کی یہ جوڑیاں قانون کی نسبت تھانے کو اپنی خواہش اور مرضی کے تابع چالانے کی غرض و غایت کے تحت تھیں. مرضی کی اس طرح کے جوڑیوں کی وجہ بہت سارے معاملات کو آفیسران بالا سے بالا بالا یا پوشیدہ رکھ کر بہت سارے معاملات ہینڈل کر لیے جاتے تھے. سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی فرمائشیں بھی پوری کی جاتی تھیں.
قانون کے رکھوالے اپنے بہت سارے غیر قانونی کاموں کو راز میں رکھنے کے لیے بھی اس سسٹم کو چلائے ہوئے تھے. اگر غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو ڈی پی او کا یہ فیصلہ بڑی تبدیلی کی اہم بنیاد لگتا ہے. اس خاص و عام، پسند نہ پسند، انڈر سٹینڈنگ، مس انڈرسٹینڈنگ، ڈس یا پھس انڈر سٹینڈنگ کی سوچ اور نظریے نے قانون کو کمزور اور شخصیات کو طاقت ور بنا دیا ہے. ایک فورس کو جس انداز میں رہنے اور کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یقینا بہترین اور دیرپا رزلٹ اسی کی بدولت ہی مل سکتے ہیں.
فورس کی عزت، وقار اور مورال کی بلندی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہوتا ہے. خاص و عام اور پسند ناپسند کے نظام کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کرنے میں کئی نئی رکاوٹیں اور الجھنیں پیدا ہو چکی تھیں.
ادارے قانون، اپنے اصول و ضوابط اور قواعد کی دیانت داری سےپابندی اور پاسداری سے ہی مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں. شخصیات آفیسران عہدیدران تو آتےجاتے رہتے ہیں. شخصیات کی خوشنودی نے ہمارے اداروں کو بہت نقصان پہنچایا ہے.آئین اور قانون کی بالا دستی اور عمل داری ہی مجموعی طور پر پورے معاشرے اور ملک و قوم کے لیے باعث اطمینان و سکون ہو سکتی ہے.
ڈی پی او منتظر مہدی نے صحافیوں کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے دوران اپنے جذبات، خیالات، عزائم، ٹارگٹس اور اصلاح و بہتری کے حوالے سے جو دعوی کیا تھا.وہ کہاں تک اسے پورا کرتے ہیں یا پورا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں. انہیں حکمران اور بہت ساری علتوں میں مبتلا سیاست دان انہیں کہاں تک فری ہینڈ. میرا مطلب آزادانہ کام کرنےدیتے ہیں. اس کا فیصلہ تو مزید پیش رفت کے بعد آنے والا وقت ہی کرے گا.
بہرحال ابھی وہ بنیادی ڈھانچے کی کمزوریوں،کوتاہیوں اور بنیادوں وغیرہ کی اصلاح کرنے میں وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی بلاتفریق معاشرے کے عوام کی جان و مال کے تحفظ، امن و سکون اور قانون کی بالادستی کی سوچ رکھنے والے ہر آفیسر کو کامیابیوں اور عزت سے نوازے. آمین.بہرحال ڈی پی او کی سوچ کردار عمل اور استقامت کا مکمل پتہ اس وقت ہی چلے گا جب حکومتی پارٹی کے لوگوں کے دلچسپی کے معاملات سامنے آئیں گے.
پولیس کے لیے سیاست دانوں کی بگڑی ہوئی عادات ہی سب سے بڑا چیلینج ہے اور رہے گا.ہم نے دیکھا کہ گذشتہ دنوں ابھی ڈی پی او کی پریس کانفرنس کی سیاسی خشک نہیں ہوئی تھی کہ مقدمہ نمبری 599بٹا15کے عدالتی مفرور اور اشتہاری ملزم کورحیم یار خان سٹی تھانہ اے ڈویژن پولیس نے گرفتار کیا.چمک سے یا سیاسی دھمک سے بااثر حکومتی شخصیت کی ایک فون کال پر پولیس نے اشتہاری ملزم کے خلاف کاروائی کرنے، اسے جیل بھیجنے کی بجائے اس فراڈئیے اور سمگلر نما شخص کو اس سیاست دان کے ایک سیاسی منشی کے حوالے کر دیا. اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے.
عوام کو پولیس اصلاحات کے حقیقی اور مکمل ثمرات تو صرف اسی وقت ہی مل سکیں گے جب پولیس کو سیاسی استعمال سے چھٹکارا نصیب ہوگا.بہرحال عوام کو بہتری کے عمل میں پولیس کے ساتھ تعاون کی سوچ اور اصلاحی جذبے کے تحت اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے. یہی وقت کا تقاضا ہے اور اسی میں ہم سب کی بہتری ہے.
واقعی پولیس بدلنے جا رہی ہے یا یہ کوئی نئے پاکستان میں محض نئی نمائشی پولیس مشقیں ہیں یا پھر صرف دکھاوے کے طور پر بے چاری عوام کو ریہرسل کرکے تبدیلی کی یہ شکلیں دکھائی جا رہی ہیں تاکہ عوام ان کو دیکھ کر تبدیلی تبدیلی کا ورد شروع کردے. تبدیلی آئے نہ آئے لیکن ذکر اور بلے بلے تو شروع ہو جائے. بیورو کریسی میں ہونے والے وسیع پیمانے پر تبادلہ جات کے ثمرات کا چرچا ہو جائے.
ماضی کی پریکٹس کی وجہ سے ان خدشات کا پیدا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے.کہتے ہیں کہ سانپ کا ڈسا اندھیرے میں پڑی ہوئی رسی سے بھی ڈرتا ہے.بہرحال ہم پولیس اصلاحات کی کامیابی کے لیے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں. گذشتہ روز صدر سرکلرحیم یار خان کےایس ڈی پی او رانا اکمل رسول نے اپنے ماتحت آفیسران کو اپنے دفتر بلا کر ان سے باقاعدہ یہ حلف لیا اور پھر اللہ تعالی سے مدد، استقامت اور کامیابی کے لیے دعا مانگی کہ وہ کرپشن نہیں کریں گے رشوت نہیں لیں گے. مختلف پارٹیوں کے ہمراہ بار بار آنے والے کاٹن مافیا کو روکا جائے گا. انویسٹیگیشن، انکوائریاں میرٹ پر کی جائیں گی تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو اور انہیں انصاف ہوتا ہوا نظر آئے .
پولیس میں ہم یہ کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا سن رہے ہیں. یقین کریں پورا یقین نہیں آتا. پھر سیف اللہ کورائی، ملک منظور ڈرگھ جیسے کچھ لوگوں کے کردار کو دیکھ کر دل کچھ کچھ ماننے لگتا ہے. امید سی بندھنے لگتی ہے.بہرحال میں ان کے اس عمل سوچ اور جذبے کو پیشگی سلام پیش کرتا ہوں. کوئی اورعمل کرے نہ کرے مجھے امید ہے کہ رانا اکمل رسول خود اس کی کوشش ضرور کرے گا.
اللہ کرے کہ پولیس میں سیاسی مداخلت بند ہو جائے اور پولیس کا عوام میں اعتماد بحال ہو جائے. پولیس کی سیاسی استعمال سے جان چھوٹے اور عوام کو انصاف میسر آئے آمین.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر