نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان کے اداکار۔۔۔وجاہت علی عمرانی

یہ ڈرامے لگاتار کئی کئی دن پیش کئے جاتے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 2004 میں آخری سٹیج ڈرامہ ڈسٹرکٹ آڈیٹوریم میں پیش کیا گیا

انسان ہر زمانے میں ڈرامے سے لطف اندوز ہوتا آیا ہے۔ البتہ اس بارے میں تاریخ کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوا۔

غالباً پتھر کے زمانے کے کسی قدیم انسان نے کسی رات آگ کے گرد بیٹھے ہوئے اپنے ساتھیوں کو ہاتھوں کے اشاروں اور اعضا کی جنبش سے اپنی قدیم ابتدائی طرز کی زبان میں اُس روز کے کسی شکار کی کہانی سنائی ہو گی۔

بہرحال تاریخ ہمیں یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر ڈرامہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے ۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔

تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔

طلباء تھیٹر کو فروغ ملا۔ اسکے بعد مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ طلباء تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں تھیں۔

ہماری ثقافت اور روایات کو اجاگر کرنے والے، معاشرے کو خوشی دینے والے، امن کا پیغام دینے والے، معاشرے کے ہونٹوں پہ سُرخی اور مسکراہٹ بکھیرنے والے جن کو ہر دور میں انکی ادکاری کے بدلے ، حوصلہ افزائی کے طور پر صرف اور صرف کاغذ کے خالی خولی سندات پکڑائے گئے۔ شکر ہےان باہنر اداکاروں کو اس بات کا احساس تو دلا دیا گیا کہ وہ بھی اس ملک کے معزز شہری ہیں شودر یا اچھوت نہیں ہیں۔

ماضی میں یہ سٹیج ڈرامے ڈیرہ والوں کی تفریح کا ایک زریعہ تھے۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے۔

آہ کیا زمانہ تھا ، جب ڈیرہ اسماعیل خان میں عظیم ڈارمہ نگار اور ڈائریکٹر ماسٹر عبدُالجبار مرحوم نے لوکل تھیٹر اور ڈراموں کی 1954-55 میں بنیاد رکھی اور انہی کے نقش قدم پہ چلتے ہوئی اور فنون ِ لطیفہ کی اس شاخ کومذید تقویت واحد بخش خاور، نصیر سرمد مرحوم، فخر سلیمانی مرحوم، ریاض ندیم مرحوم، عزیز چوہدری مرحوم، یعقوب مظہراور بہترین شاعر و ادیب اور ڈرامہ نگار و اداکار کوثر خمار صاحب نے دی جو عیدوں، سرکاری و غیر سرکاری تقریبات، سکولوں، کالجوں، شادی کی تقریبات اور مختلف تہواروں پر مختلف جگہوں کبھی سوشل ویلفئیر، ٹاؤن ہال، پریس کلب، ڈسٹرکٹ آڈیٹوریم، خالصہ سکول میں تھیٹر کا اپنے ہی خرچے پر ، خود ہی رائیٹر، خود ہی ڈائریکٹر، خود ہی میک اپ مین، خود ہی سٹیج ڈیزائنر اور خود ہی اداکار اور بہترین اداکاری اور ڈائیلاگ کے ساتھ ڈرامہ پیش کرتے اور ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں سماجی و معاشرتی مسائل اجاگر کرتے اور اور کثیر تعداد میں آئے ہوئے سامعین سے داد وصول کرتے۔

یہ ڈرامے لگاتار کئی کئی دن پیش کئے جاتے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے 2004 میں آخری سٹیج ڈرامہ ڈسٹرکٹ آڈیٹوریم میں پیش کیا گیا اور اسکے بعد شہر کے گونگوں حالات اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے حکومتِ وقت نے ان اداکاروں کے لیئے ہر قسم کے ہالوں کو تالے لگا کے بند کر دیا۔ جنہوں نے خالی پیٹ، تھیٹر کی پرورش کی تھی۔ جنہوں نے ایڈز کے پھیلاؤ، خواتین کے حقوق، غربت و افلاس، رشتے ہوں یا رویے، مسائل کچھ بھی ہوں، وسائل کی پرواہ کئے بغیر اپنے ڈراموں اور ڈائیلاگ کی زریعے آواز ضرور اٹھائی اور صرف اپنے دیکھنے والوں کو ہی باشعور نہیں بنایا بلکہ اس دور کی نوجوان نسل کی بھی ان ڈراموں کے زریعے بھر پور تربیت کی۔

فنونِ لطیفہ کی سر سبز زمین ڈیرہ اسماعیل خان کے پُرخلوص اور مشہور اداکار نذر شباب، نیاز حسین ، جاوید خیالی، محمد خان، شہزادہ سلیم، ممتاز بیگ، ستار سانول، غلام عباس فرشتہ، شہزادہ سلیم ساغر، ندیم عباس، یحیٰ بلال، عثمان حیدر، جمشید خٹک، افتخار شاہ، اظہارُالدین صدیقی ، اسماعیل شوق، ممتاز زیب، منظور حسین عادل، ماما شجاع، شہزادہ فضل داد، آرگنائزر بشیر کنوراور ادکار و کیمرہ مین سیف اللہ صنم ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے کرب اور دکھ اپنے سینے میں چھپاکہ ہر ڈیرے وال کے چہرے پہ خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیریں اور تھیٹر کو فروغ دیا۔

ہماری پوری تاریخ میں اور بالخصوص گزشتہ چند دہائیوں سے جاری شورش نے ہمارے فنکاروں کو سوائے ذلت و خواری دربدری اور کس مپرسی کے اور کچھ بھی نہیں ملا ہے، حالانکہ یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں خوشی بانٹتے ہیں، پیار و محبت کی تبلیغ کرتے ہیں اور نفرتوں کو مٹاتے ہیں، لوگوں کو اپنی ادکاری کے زریعے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہیں، امن کا پیغام دیتے ہیں، ماحول کو سازگار بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

ہمارے اربابِ اختیار کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے کہ تھیٹر اور ڈرامہ ابلاغ کا براہ راست میڈیم ہے اور شعور و آگہی کے لیئے بہترین کردار ادا کرنے کے علاوہ معاشرے میں تشدد کے رجحان کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ میلوں ٹھیلوں کی سرپرستی کرنے والوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیئے کہ یہ اداکار و فنکار بھی ہمارا اثاثہ ہیں، ان سے بھی فروغ َ امن کے سلسلے میں تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ان کے لیئے مختلف ہالوں میں پڑے زنگ آلود تالوں کو کھول کر ڈیرہ والوں کی تالیوں اور قہقوں کی گونج سے ڈیرے میں امن ، یکجہتی، رواداری کی ایک بار پھر سے مثال قائم کی جاسکتی ہے۔ ڈیرہ کے یہ عظیم اداکار و فنکار آج بھی کسی سرپرست یا زوقِ جمال رکھنے والے کسی صاحبِ ثروت کے دست شفقت کو تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں

About The Author