محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری زندگی میں پہلی کتاب کہانیوں کی تھی۔ سات یا آٹھ سال کی عمر میں دوسری ، تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اگرچہ شرارتی بچہ نہیں تھا، مگر کسی طرح ہمسائیے کی دیوار پھلانگتے ہوئے نیچے گرا اور بازو فریکچر ہوگیا۔ چند ہفتوں کے لئے چھٹی ملی اور گھر رہنا پڑا۔ بچہ خواہ کیسا ہی معصوم اور بھولا بھالا ہو، وہ کیسے دن بھر گھر میں سکون سے بیٹھ سکتا ہے؟ایک دن والد صاحب عدالت سے واپسی پر کہانیوں کی چند کتابیں لائے۔ ٹارزن، عمرو عیار وغیرہ کی چند صفحاتی کہانیاں تھیں۔پرانی بات ہے ، صحیح طرح سے یاد تو نہیں، اردو اچھی ہوگی کہ ان کہانیوں کو رک رک کر سہی مگر پڑھنے لگا۔ہماری دادی اور نانی بہت پہلے انتقال کر گئی تھیں۔ کہانیاں امی سنایا کرتی تھیں۔ اس وقت تو کبھی نہیں سوچا، اب خیال آتا ہے کہ وہ کہانی سناتے ہوئے وقفہ کیوں لیا کرتی تھیں؟ فوری کہانی گھڑنے اور اپنی مرضی کا موڑ دینے میں چند لمحے تو لگتے ہی ہیں۔
ان کہانیوں کے ساتھ مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ انگریزی محاورے کے مطابق بیڈ ٹائم سٹوریز تھیں۔ صرف رات کو سنائی جاتیں کہ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ تب یہ خیال نہیں آیا کہ کہانی تو احمد پورشرقیہ کے محلہ کٹرہ احمد خان کے گھر میں سنائی جا رہی ہے، دور کہیں سفر کرنے والے مسافر کیوں راستہ بھولیں گے؟بازو ٹوٹنے کے باعث آرام کرنا پڑا،مگر مفتے میں کہانیاں پڑھنے کو ملیں تو ان کی لت پڑ گئی۔ ان کہانیوں نے کئی طرح کی دنیاﺅں سے روشناس کرایا۔ جنگل کا ٹارزن، امیر حمزہ کا دوست عمروعیار، سائنس دان کے دو بیٹے چلوسک ملوسک، لمبے قد اور بڑے سر والا آنگلو اور چھوٹے قد مگر مٹکے جیسے پیٹ والا اس کا بھائی بانگلو، پراسرار قوتوں والے بندر بابا اور چھ انگلیوں والا چھن چھنگلو،قسم قسم کے جادوگر، جنات، چڑیلیں، دیو وغیرہ ۔
والد مرحوم بعد میں کف ِافسوس ملتے پائے گئے کہ اس دن کہانیوں کی کتابیں کیوں لایا تھا؟ تیر مگر کمان سے نکل چکا تھا۔رفتہ رفتہ ہم بچوں والی کہانیوں سے اشتیاق احمدکے ناولوں،ایچ اقبال کی پرمود سیریز، اثر نعمانی کی شگفتہ شہزاد سیریز، مظہر کلیم کی عمران سیریز اورابن صفی کے جاسوسی ناولوں تک پہنچ گئے۔ابن صفی کی عمران سیریز نیا رخ ڈائجسٹ اور کرنل فریدی سیریز نیا افق ڈائجسٹ میں ہر ماہ شائع ہوتی تھی۔ ان دنوں ایک اچھی بات یہ تھی کہ پانچویں، آٹھویں اور دسویں کے بورڈ کے امتحان ہوتے تھے۔ ایسے ہر امتحان کے بعد دو ڈھائی ماہ تک چھٹیاں ہوتیں۔ اکیڈمیوں کاعفریت نہیں آیا تھا، بچے ان چھٹیوں کو خوب مزے سے گزارتے ۔ ہمارے جیسے طلبہ لائبریریوں کے چکر لگاتے ۔ کرایے پر ناول، کتابیں دینے والی لائبریریوں کا آخری دور چل رہا تھا۔ میں نے نسیم حجازی ، عبدالحلیم شرر اور قمر اجنالوی کے تمام ناول قمر لائبریری سے پڑھے۔ سب رنگ ڈائجسٹ پہلی بار بڑی ہمشیرہ سے لے کر پڑھااور پھر اس کی لت پڑ گئی۔ بعد میں ان ہی سے خواتین ، شعاع ،کرن ڈائجسٹ وغیرہ بھی پڑھتے رہے۔ جاسوسی، سسپنس ،نیارخ، نئے افق، مسٹری میگزین، ایکشن، عمران ڈائجسٹ اور پرانے عالمی ڈائجسٹ کے ساتھ پرانے سب رنگ اسی قمر لائبریری سے پڑھے۔
قمر لائبریری کے مالک کا نام یاد نہیں۔ لائبریری کے ساتھ گھڑیوں کی مرمت کا کام بھی کرتے تھے۔ آج وہ کرایہ کی لائبریریاں بہت بڑی نعمت محسوس ہوتی ہیں۔ میرے جیسے لاکھوں کو ان سے نفع پہنچا۔ میرا سکول شہر کا سب سے بڑا ہائی سکول تھا،گورنمنٹ ایس اے ( صادق عباس)ہائی سکول۔کہنے کو تو اس سکول میں لائبریری تھی۔ معلوم نہیں کون وہاں جاتا تھا، کسے کتاب ایشو ہوتی تھی، ہم واقف نہیں۔ خیر سے سکول انتظامیہ اوراساتذہ میں سے کسی نے ہمارا ادبی ،علمی ذوق سنوارنے میں کوئی حصہ نہیں ڈالا۔چھوٹے پسماندہ شہروں کا شائد یہ مشترک المیہ ہے۔ البتہ کالج دور میں لائبریری سے خوب کتابیں ایشو کرائیں۔ احمد پورشرقیہ کا ہی کالج تھا،گورنمنٹ صادق عباس ڈگری کالج۔ صادق عباس دراصل آخری نواب بہاولپور کا نام تھا، جس نے بہاولپور ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا اور پھر الحاق کے ذریعے ون یونٹ کا حصہ بنایا ۔ ون یونٹ ٹوٹا تو بہاولپور کی ریاست صوبہ پنجاب کا حصہ بنی اور آج تک چلی آ رہی ہے۔
کالج، یونیورسٹی کے بعد صحافت کا دور شروع ہوا۔ اردو ڈائجسٹ کی لائبریری سے خوب فائدہ اٹھایا۔ لاہور میں کسی اخبار، جریدے کے پاس اردو ڈائجسٹ جیسی لائبریری نہیں۔کئی سال بعد ایکسپریس کا میگزین انچارج بنا تو کتابوں پر تبصروں کا سلسلہ شروع کیا۔ابتدا میں اپنی خریدی ہوئی کتابوں پر ہی تبصرہ کرتے، پھر کچھ اشاعتی اداروں اور مصنفین نے تبصرے کے لئے کتابیں بھیجنا شروع کر دیں۔ انہی میں ایک بہت ہی خوشگوار اور حسین اضافہ جہلم سے آنے والی کتابوں کا تھا۔بک کارنرجہلم کی کتابیں۔ نہایت دلکش، خوش رنگ طباعت میں کتاب دیکھ کر دل خوش ہوتا۔ اسلامی ہیروز پر پوری سیریز تھی، خالد بن ولیدؓ، محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی، شیر شاہ سوری وغیرہ۔ حیرت ہوتی کہ جہلم میں کوئی پبلشر اتنی عمدہ کتابیں کیسے شائع کرسکتا ہے؟
جہلم کے بک کارنر کی کتابوں سے بعد میں رابطہ اور تعلق بڑھتا گیا۔ ہر سال لاہور کے کتاب میلے میں بڑا سٹال ان کی کتابوں کا ہوتا اور دیکھ کر جی خوش ہوجاتا۔ چند سال پہلے ایکسپو سنٹر کے اسی کتاب میلے سے کئی ہزار روپے کی کتابیں خریدیں۔ عالمی سب رنگ افسانے،ساحر لدھیانوی کی آپ بیتی ”میں ساحر ہوں“، شاعروں ادیبوں کے واقعات ،ادبی لطائف اور نجانے کیا کیا۔ پچھلے دو ڈھائی برسوں میں جہلم بک کارنر نے اتنی زیادہ عمدہ کتابیں شائع کیں کہ یقین نہیں آتا۔گلزار کی کتابیں، شمس الرحمن فاروقی کا ناول کئی چاند تھے سرآسماں اور ان کی دیگرتخلیقات پر مشتمل ”مجموعہ “، دوستوفسکی کی ”برادرزکرامازوف“، جسٹن گارڈنر کی ”سوفی کی دنیا“، شالوخوف کا ”اور ڈان بہتا رہا“، جارج اورویل کی 1984،رسول حمزہ توف کی” میرا داغستان۔“ منفرد فکشن نگار علی اکبر ناطق کی پانچ کتابیں، رﺅف کلاسرا کے دو منتخب تحریروں کے مجموعے اور بالزاک کے دو ناولوں کے تراجم ،کرشن چندر کے تین ناول، بلونت سنگھ کا مشہور ناول ،قاضی عبدالستار کے شاہکار ناول داراشکوہ، غالب اور وہ سیریز جو میرے دل میں نقش ہے سب رنگ کہانیاں (جلداول، دوم، سوم) سمیت درجنوں اعلی طباعت سے آراستہ حسین کتابیں بک کارنر ہی نے شائع کیں۔
یہ سب کتابوں اور اس مساعی کے پیچھے جو شخص تھا، جس نے اپنی زندگی کے پچاس سال کتابوں کو پھیلانے ، پروموٹ کرنے کے لئے وقف کر دئیے ،مہکتی کتابیں شائع کرنے والا وہ خوشبو جیسا شخص شاہد حمید مارچ کے ایک اداس دن رخصت ہوگیا۔ شاہد حمید صاحب سے تعارف ان کی خوبصورت کتابوں کے ذریعے ہی ہوا۔ وہ ناشر تھے، کتابیں چھاپنا ان کا کام اور پیشہ تھا۔ کتاب کو مگر جس محنت، خوبصورت اور دل سے وہ چھاپتے، اسے پھیلاتے رہے، کتاب میلوں میں بہت اچھے ڈسکاﺅنٹ کے ساتھ آگے پہنچاتے رہے، یہ انہی کا خاصہ تھا۔ ان کے صاحبزادوں گگن شاہد، امر شاہد سے ابھی تک میری باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی، صرف فون پر دو چار بات ہوئی۔ جب بھی ذکر ہوا،انہوں نے یہی بتایا کہ والد صاحب کی یہ خواہش ہے کہ اردو میں دنیا کا بہترین لٹریچر منتقل ہو اور ایسی خوبصورت کتاب مناسب داموں میں چھاپی جائے کہ پڑھنے والوں کی روح سرشار ہوجائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ شاہد حمید صاحب اور ان کی اگلی نسل اس مقصد میں کامیاب ہوئی۔ کتابوں سے ہمیں عشق کا دعویٰ نہیں، مگر دلی محبت ضرور ہے۔فٹ پاتھ پر رکھی پھٹی پرانی کتاب بھی اٹھا لیتے ہیں کہ شائدکچھ صفحات پڑھنے کو مل جائیں۔ کتاب اچھے کاغذ پر چھپی ہو یا پرانی طباعت ہو، اسے کسی نہ کسی طرح پڑھ ہی لیا۔ جہلم بک کارنر کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے جیسی سرشاری اور مسرت ملی، یہ منفرد اور اچھوتا احساس ہے۔ یہ معلوم کر کے مزید خوشی ہوئی کہ شاہد حمید صاحب نے آنہ لائبریری سے آغاز کیا تھا، وہ کتابیں بڑے ذوق شوق سے چھاپتے اور پھیلاتے رہے ،رفتہ رفتہ اسے اس نہج پر لے گئے کہ عالمی معیار کی کتابیں شائع کرنے لگے۔
شاہد حمید صاحب سے ملاقات کی شدید خواہش تھی، کورونا کے باعث میں نے اپنی آمدورفت بہت محدود کی ہوئی ہے، خواہش کے باوجود جہلم نہ جا پایا۔میری کتاب زنگار شائع ہوئی تو گگن شاہد نے بتایا کہ ابو نے آپ کی کتاب مزے لے کر مکمل پڑھی ہے اور انہیں پسند آئی ۔ارادہ تھا کہ ملاقات پر ان کی رائے دریافت کروں گا۔ پوچھنا تو یہ بھی چاہتا تھا کہ اتنی کامیابیوں کے بعد آپ کے دل میں لاہور یا اسلام آباد منتقل ہونے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ یہ بھی کہ آپ نے جہلم جیسے متوسط درجے کے شہر میں اتنی عمدہ متنوع کتابیں چھاپنے والا ادارہ کیسے بنا ڈالا؟
سب کچھ تشنہ رہ گیا۔ شاہد صاحب چلے گئے، ان کی خوشبو بھی ان کے ساتھ گئی۔ اسلام آباد میں مسٹر بکس کے یوسف صاحب کے بارے میں بھی رﺅف کلاسرا، آصف محمود جیسے دوست ایسے ہی قصے سناتے ہیں۔ مہکتی کتابیں چھاپنے والے لوگ چلے گئے۔ ان کی خوشبو فضاﺅں میں بکھر گئی۔ خوشبو کا یہ سفر ان شااللہ جاری رہے گا۔ اچھی، معیاری ، خوبصورت کتابیں چھپتی رہیں گی۔ ہم نہیں ہوں گے تو دوسرے لوگ انہیں پڑھتے ، سراہتے رہیں گے۔ کتابوں کا یہ سفر رب نے چاہا تو جاری رہے گا۔ڈیجیٹل کتابوں، ای بکس، پی ڈی ایف کی یلغار کے باوجود کتاب ان شااللہ اپنا وجود برقرار رکھے گی۔ یہ وہ لڑائی ہے جو ہم سے پہلے والوں نے لڑی، جب تک ہم ہیں اللہ نے چاہا تو اسے جاری رکھیں گے،اس کے بعدکوئی اور جھنڈا اٹھائے گا۔
ان کہانیوں کے ساتھ مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ انگریزی محاورے کے مطابق بیڈ ٹائم سٹوریز تھیں۔ صرف رات کو سنائی جاتیں کہ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ تب یہ خیال نہیں آیا کہ کہانی تو احمد پورشرقیہ کے محلہ کٹرہ احمد خان کے گھر میں سنائی جا رہی ہے، دور کہیں سفر کرنے والے مسافر کیوں راستہ بھولیں گے؟بازو ٹوٹنے کے باعث آرام کرنا پڑا،مگر مفتے میں کہانیاں پڑھنے کو ملیں تو ان کی لت پڑ گئی۔ ان کہانیوں نے کئی طرح کی دنیاﺅں سے روشناس کرایا۔ جنگل کا ٹارزن، امیر حمزہ کا دوست عمروعیار، سائنس دان کے دو بیٹے چلوسک ملوسک، لمبے قد اور بڑے سر والا آنگلو اور چھوٹے قد مگر مٹکے جیسے پیٹ والا اس کا بھائی بانگلو، پراسرار قوتوں والے بندر بابا اور چھ انگلیوں والا چھن چھنگلو،قسم قسم کے جادوگر، جنات، چڑیلیں، دیو وغیرہ ۔
والد مرحوم بعد میں کف ِافسوس ملتے پائے گئے کہ اس دن کہانیوں کی کتابیں کیوں لایا تھا؟ تیر مگر کمان سے نکل چکا تھا۔رفتہ رفتہ ہم بچوں والی کہانیوں سے اشتیاق احمدکے ناولوں،ایچ اقبال کی پرمود سیریز، اثر نعمانی کی شگفتہ شہزاد سیریز، مظہر کلیم کی عمران سیریز اورابن صفی کے جاسوسی ناولوں تک پہنچ گئے۔ابن صفی کی عمران سیریز نیا رخ ڈائجسٹ اور کرنل فریدی سیریز نیا افق ڈائجسٹ میں ہر ماہ شائع ہوتی تھی۔ ان دنوں ایک اچھی بات یہ تھی کہ پانچویں، آٹھویں اور دسویں کے بورڈ کے امتحان ہوتے تھے۔ ایسے ہر امتحان کے بعد دو ڈھائی ماہ تک چھٹیاں ہوتیں۔ اکیڈمیوں کاعفریت نہیں آیا تھا، بچے ان چھٹیوں کو خوب مزے سے گزارتے ۔ ہمارے جیسے طلبہ لائبریریوں کے چکر لگاتے ۔ کرایے پر ناول، کتابیں دینے والی لائبریریوں کا آخری دور چل رہا تھا۔ میں نے نسیم حجازی ، عبدالحلیم شرر اور قمر اجنالوی کے تمام ناول قمر لائبریری سے پڑھے۔ سب رنگ ڈائجسٹ پہلی بار بڑی ہمشیرہ سے لے کر پڑھااور پھر اس کی لت پڑ گئی۔ بعد میں ان ہی سے خواتین ، شعاع ،کرن ڈائجسٹ وغیرہ بھی پڑھتے رہے۔ جاسوسی، سسپنس ،نیارخ، نئے افق، مسٹری میگزین، ایکشن، عمران ڈائجسٹ اور پرانے عالمی ڈائجسٹ کے ساتھ پرانے سب رنگ اسی قمر لائبریری سے پڑھے۔
قمر لائبریری کے مالک کا نام یاد نہیں۔ لائبریری کے ساتھ گھڑیوں کی مرمت کا کام بھی کرتے تھے۔ آج وہ کرایہ کی لائبریریاں بہت بڑی نعمت محسوس ہوتی ہیں۔ میرے جیسے لاکھوں کو ان سے نفع پہنچا۔ میرا سکول شہر کا سب سے بڑا ہائی سکول تھا،گورنمنٹ ایس اے ( صادق عباس)ہائی سکول۔کہنے کو تو اس سکول میں لائبریری تھی۔ معلوم نہیں کون وہاں جاتا تھا، کسے کتاب ایشو ہوتی تھی، ہم واقف نہیں۔ خیر سے سکول انتظامیہ اوراساتذہ میں سے کسی نے ہمارا ادبی ،علمی ذوق سنوارنے میں کوئی حصہ نہیں ڈالا۔چھوٹے پسماندہ شہروں کا شائد یہ مشترک المیہ ہے۔ البتہ کالج دور میں لائبریری سے خوب کتابیں ایشو کرائیں۔ احمد پورشرقیہ کا ہی کالج تھا،گورنمنٹ صادق عباس ڈگری کالج۔ صادق عباس دراصل آخری نواب بہاولپور کا نام تھا، جس نے بہاولپور ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا اور پھر الحاق کے ذریعے ون یونٹ کا حصہ بنایا ۔ ون یونٹ ٹوٹا تو بہاولپور کی ریاست صوبہ پنجاب کا حصہ بنی اور آج تک چلی آ رہی ہے۔
کالج، یونیورسٹی کے بعد صحافت کا دور شروع ہوا۔ اردو ڈائجسٹ کی لائبریری سے خوب فائدہ اٹھایا۔ لاہور میں کسی اخبار، جریدے کے پاس اردو ڈائجسٹ جیسی لائبریری نہیں۔کئی سال بعد ایکسپریس کا میگزین انچارج بنا تو کتابوں پر تبصروں کا سلسلہ شروع کیا۔ابتدا میں اپنی خریدی ہوئی کتابوں پر ہی تبصرہ کرتے، پھر کچھ اشاعتی اداروں اور مصنفین نے تبصرے کے لئے کتابیں بھیجنا شروع کر دیں۔ انہی میں ایک بہت ہی خوشگوار اور حسین اضافہ جہلم سے آنے والی کتابوں کا تھا۔بک کارنرجہلم کی کتابیں۔ نہایت دلکش، خوش رنگ طباعت میں کتاب دیکھ کر دل خوش ہوتا۔ اسلامی ہیروز پر پوری سیریز تھی، خالد بن ولیدؓ، محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی، شیر شاہ سوری وغیرہ۔ حیرت ہوتی کہ جہلم میں کوئی پبلشر اتنی عمدہ کتابیں کیسے شائع کرسکتا ہے؟
جہلم کے بک کارنر کی کتابوں سے بعد میں رابطہ اور تعلق بڑھتا گیا۔ ہر سال لاہور کے کتاب میلے میں بڑا سٹال ان کی کتابوں کا ہوتا اور دیکھ کر جی خوش ہوجاتا۔ چند سال پہلے ایکسپو سنٹر کے اسی کتاب میلے سے کئی ہزار روپے کی کتابیں خریدیں۔ عالمی سب رنگ افسانے،ساحر لدھیانوی کی آپ بیتی ”میں ساحر ہوں“، شاعروں ادیبوں کے واقعات ،ادبی لطائف اور نجانے کیا کیا۔ پچھلے دو ڈھائی برسوں میں جہلم بک کارنر نے اتنی زیادہ عمدہ کتابیں شائع کیں کہ یقین نہیں آتا۔گلزار کی کتابیں، شمس الرحمن فاروقی کا ناول کئی چاند تھے سرآسماں اور ان کی دیگرتخلیقات پر مشتمل ”مجموعہ “، دوستوفسکی کی ”برادرزکرامازوف“، جسٹن گارڈنر کی ”سوفی کی دنیا“، شالوخوف کا ”اور ڈان بہتا رہا“، جارج اورویل کی 1984،رسول حمزہ توف کی” میرا داغستان۔“ منفرد فکشن نگار علی اکبر ناطق کی پانچ کتابیں، رﺅف کلاسرا کے دو منتخب تحریروں کے مجموعے اور بالزاک کے دو ناولوں کے تراجم ،کرشن چندر کے تین ناول، بلونت سنگھ کا مشہور ناول ،قاضی عبدالستار کے شاہکار ناول داراشکوہ، غالب اور وہ سیریز جو میرے دل میں نقش ہے سب رنگ کہانیاں (جلداول، دوم، سوم) سمیت درجنوں اعلی طباعت سے آراستہ حسین کتابیں بک کارنر ہی نے شائع کیں۔
یہ سب کتابوں اور اس مساعی کے پیچھے جو شخص تھا، جس نے اپنی زندگی کے پچاس سال کتابوں کو پھیلانے ، پروموٹ کرنے کے لئے وقف کر دئیے ،مہکتی کتابیں شائع کرنے والا وہ خوشبو جیسا شخص شاہد حمید مارچ کے ایک اداس دن رخصت ہوگیا۔ شاہد حمید صاحب سے تعارف ان کی خوبصورت کتابوں کے ذریعے ہی ہوا۔ وہ ناشر تھے، کتابیں چھاپنا ان کا کام اور پیشہ تھا۔ کتاب کو مگر جس محنت، خوبصورت اور دل سے وہ چھاپتے، اسے پھیلاتے رہے، کتاب میلوں میں بہت اچھے ڈسکاﺅنٹ کے ساتھ آگے پہنچاتے رہے، یہ انہی کا خاصہ تھا۔ ان کے صاحبزادوں گگن شاہد، امر شاہد سے ابھی تک میری باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی، صرف فون پر دو چار بات ہوئی۔ جب بھی ذکر ہوا،انہوں نے یہی بتایا کہ والد صاحب کی یہ خواہش ہے کہ اردو میں دنیا کا بہترین لٹریچر منتقل ہو اور ایسی خوبصورت کتاب مناسب داموں میں چھاپی جائے کہ پڑھنے والوں کی روح سرشار ہوجائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ شاہد حمید صاحب اور ان کی اگلی نسل اس مقصد میں کامیاب ہوئی۔ کتابوں سے ہمیں عشق کا دعویٰ نہیں، مگر دلی محبت ضرور ہے۔فٹ پاتھ پر رکھی پھٹی پرانی کتاب بھی اٹھا لیتے ہیں کہ شائدکچھ صفحات پڑھنے کو مل جائیں۔ کتاب اچھے کاغذ پر چھپی ہو یا پرانی طباعت ہو، اسے کسی نہ کسی طرح پڑھ ہی لیا۔ جہلم بک کارنر کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے جیسی سرشاری اور مسرت ملی، یہ منفرد اور اچھوتا احساس ہے۔ یہ معلوم کر کے مزید خوشی ہوئی کہ شاہد حمید صاحب نے آنہ لائبریری سے آغاز کیا تھا، وہ کتابیں بڑے ذوق شوق سے چھاپتے اور پھیلاتے رہے ،رفتہ رفتہ اسے اس نہج پر لے گئے کہ عالمی معیار کی کتابیں شائع کرنے لگے۔
شاہد حمید صاحب سے ملاقات کی شدید خواہش تھی، کورونا کے باعث میں نے اپنی آمدورفت بہت محدود کی ہوئی ہے، خواہش کے باوجود جہلم نہ جا پایا۔میری کتاب زنگار شائع ہوئی تو گگن شاہد نے بتایا کہ ابو نے آپ کی کتاب مزے لے کر مکمل پڑھی ہے اور انہیں پسند آئی ۔ارادہ تھا کہ ملاقات پر ان کی رائے دریافت کروں گا۔ پوچھنا تو یہ بھی چاہتا تھا کہ اتنی کامیابیوں کے بعد آپ کے دل میں لاہور یا اسلام آباد منتقل ہونے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ یہ بھی کہ آپ نے جہلم جیسے متوسط درجے کے شہر میں اتنی عمدہ متنوع کتابیں چھاپنے والا ادارہ کیسے بنا ڈالا؟
سب کچھ تشنہ رہ گیا۔ شاہد صاحب چلے گئے، ان کی خوشبو بھی ان کے ساتھ گئی۔ اسلام آباد میں مسٹر بکس کے یوسف صاحب کے بارے میں بھی رﺅف کلاسرا، آصف محمود جیسے دوست ایسے ہی قصے سناتے ہیں۔ مہکتی کتابیں چھاپنے والے لوگ چلے گئے۔ ان کی خوشبو فضاﺅں میں بکھر گئی۔ خوشبو کا یہ سفر ان شااللہ جاری رہے گا۔ اچھی، معیاری ، خوبصورت کتابیں چھپتی رہیں گی۔ ہم نہیں ہوں گے تو دوسرے لوگ انہیں پڑھتے ، سراہتے رہیں گے۔ کتابوں کا یہ سفر رب نے چاہا تو جاری رہے گا۔ڈیجیٹل کتابوں، ای بکس، پی ڈی ایف کی یلغار کے باوجود کتاب ان شااللہ اپنا وجود برقرار رکھے گی۔ یہ وہ لڑائی ہے جو ہم سے پہلے والوں نے لڑی، جب تک ہم ہیں اللہ نے چاہا تو اسے جاری رکھیں گے،اس کے بعدکوئی اور جھنڈا اٹھائے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر