سردی آج زیادہ ہے۔ صبح سات بجے گھر سے نکلا تو درجہ حرارت 37 ڈگری تھا۔ امریکا میں درجہ حرارت فارن ہائیٹ میں بتاتے ہیں جو پاکستانیوں کے لیے سمجھنا دشوار ہوتا ہے۔ میں اس کا فارمولا جان گیا ہوں۔ 32 ڈگری فارن ہائیٹ مساوی ہے صفر ڈگری سینٹی گریڈ کے۔ پھر ہر 1.8 ڈگری فارن ہائیٹ پر ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھتا جاتا ہے۔
37 ڈگری فارن ہائیٹ کا مطلب ہوا 3 ڈگری سینٹی گریڈ۔ لیکن ہوا کل سے چل رہی تھی۔ ہوا چلتی ہے تو درجہ حرارت جتنا بھی ہو، ٹھنڈ زیادہ لگتی ہے۔ آج اتنی زیادہ تھی کہ ہاتھ جیب سے باہر نکالا تو سن ہونے لگا۔ ٹوپی اور دستانے پہننے کا وقت آگیا۔ دستانے نہ پہنوں تو کار کا اسٹیئرنگ سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ برفیلا پہیہ ہاتھوں کو جما دے گا۔
ہوا میں نمی ہو تو سویرے ونڈ اسکرین پر بھی برف جمی ہوئی ملتی ہے۔ اسے صاف کرنے یا وائپر چلانے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ گاڑی گرم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کبھی جلدی ہو اور گاڑی فوراً سڑک پر لے جاؤں تو شیشہ بار بار اندھا ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات میں فیصلہ نہیں کرپاتا کہ آنکھیں دھندلائی ہوئی ہیں یا عینک پر گرد جمی ہے یا ونڈ اسکرین دھوکا دے رہی ہے یا دھند سڑک پر چھائی ہوئی ہے۔
خزاں کا موسم ہے اور دو دن پہلے تک درختوں سے پتے آہستہ آہستہ جھڑ رہے تھے۔ لیکن ان دو دنوں میں اتنی تیز ہوا چلی کہ بہت سے درخت ننگے ہوگئے۔ موسم گرما میں ہمارے کمرے کی کھڑکی سے آسمان اور بالکونی سے ندی نظر نہیں آتی لیکن پت جھڑ کے بعد سارا میدان صاف پڑا ہے۔
یہاں کچرا اٹھانے والی گاڑیاں منہ اندھیرے آجاتی ہیں۔ لیکن وہ پتے نہیں سمیٹتیں۔ اس کے لیے الگ عملہ ہے۔ وہ دن میں آتا ہے اور ویکیوم کلینر جیسی مشین چلاتا ہے۔ محلے بھر سے پتے سمیٹ کر بوریاں بھرلیتا ہے۔ محلے میں دس بیس نہیں، سیکڑوں درخت ہیں۔ گھروں کے اطراف جو درختوں کے جھنڈ ہیں، امریکی انھیں کسی شمار میں نہیں لاتے۔ پارک اس قطعہ اراضی کو قرار دیتے ہیں جس میں کسی کی رہائش نہ ہو۔ سڑک کے پار ایسا ایک پارک 22 ایکڑ رقبے پر ہے۔
امریکا میں کل تھینکس گیونگ تھا اور آج بلیک فرائی ڈے ہے۔ کل پورے ملک میں چھٹی تھی اور آج بھی اسکول اور بہت سے ادارے بند ہیں۔ صبح سڑکوں پر ٹریفک نہیں تھا۔ ٹرین کے ہر ڈبے میں اکا دکا اداس مسافر بیٹھے تھے۔
تھینکس گیونگ امریکا کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اسے ان کی بقرعید سمجھیں۔ بیشتر خاندان اس روز ٹرکی ذبح کرکے پکاتے ہیں اور دوستوں رشتے داروں کی دعوت کرتے ہیں۔ ٹرکی مرغی اور شتر مرغ کے درمیان کی شے ہے۔ اسے پالا بھی جاتا ہے اور جنگلوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ چکن اور ٹرکی کے ذائقے میں وہی فرق ہے جو چھوٹے اور بڑے گوشت میں ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کی پرانی نسل کو ٹرکی پسند نہیں اور نئی نسل کو مرغوب ہے۔ پاکستان میں سب وے پر اس کے برگر ملتے ہیں۔
ہمارے دفتر کے ساتھی انجم ہیرلڈ گل تھینکس گیونگ پر چھٹی مناتے ہیں اور اگلے دن ہمارے لیے پمپکن کیک لاتے ہیں۔ میں نے گزشتہ سال ہپ کھایوں کی طرح پلیٹ بھر لی تھی اور پھر اسے ختم کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ آئندہ کے لیے توبہ کرلی تھی۔ ہری لوکی کا حلوہ جتنا مرضی کھلادیں لیکن پیلے کدو کے کیک کا نام نہ لیں۔ اس کے لیے جو ذوق درکار ہے، وہ فی الوقت ہمارے پاس نہیں۔ آج صبح بھی انجم بھائی نے خاطر کی بلکہ گزشتہ سال کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو یہ کیک پسند ہے ناں؟ میں نے زیر لب کہا، کدو!
خزاں کا موسم ہے اور دو دن پہلے تک درختوں سے پتے آہستہ آہستہ جھڑ رہے تھے۔ لیکن ان دو دنوں میں اتنی تیز ہوا چلی کہ بہت سے درخت ننگے ہوگئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ