مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مڈل ایسٹ میں تاریخ و ثقافت کی تباہی – رابرٹ فسک کا بیانیہ||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رابرٹ فسک مڈل ایسٹ میں ایک ایسا ” وار رپورٹر ” ہے جس کا قلم صحافتی معروضیت سے تو لبریز ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ اپنی رپورتاژ میں ایسی ادبی چاشنی بھی گھولتا کہ آدمی مسحور ہوجاتا ہے ، لیکن آج کل وہ اپنی مہارت سے مڈل ایسٹ کی وہ تصویر ہمارے سامنے پیش کررہا ہے جس تصویر کو نقش کرنے میں مغربی لبرل مصوران صحافت کے برش کبھی حرکت میں نہیں آتے اور ان کے کینوس پر وہ تصویر ابھر ہی نہیں پاتی جو رابرٹ فسک کے برش سے اس کے صحافتی کینوس پر ابھرتی ہے
رابرٹ فسک برطانوی صحافی ہے اور وہ مغرب کے ” انکل سام لبرل کیمپ ” کی دوغلی اور منافقت سے بھری سوچ اور فکر کو بھی بے نقاب کرنے سے گبھراتا نہیں ہے اور وہ خوش قسمت بھی ہے کہ اسے برطانیہ کا معروف اخبار ” روزنامہ انڈی پینڈنٹ ” طمطراف سے شایع بھی کرتا ہے
مغربی پریس کی جانب رخ کریں تو وہاں داعش کی جانب سے گوشتہ چند دنوں سے شام میں پامیرا شہر کے اندر تاريخی رومن عمارتوں کے قدیم کھنڈرات کی تباہی کا نوحہ زور و شور سے پڑھا جارہا ہے اور ” ہائے داعش ، ہائے داعش ” کا شور وغل پربا ہے ، کوئی داعش کو وحشی کہتا ہے ،کوئی گنوار ، کوئی بربریت کے علمبردار اور ہ طرف سے داعش کو لعن طعن کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے ، داعش کے بارے میں انکل سام لبرل کیمپ کا واویلا جاری ہے کہ وہ تاريخ ، آثار قدیمہ اور اور ماضی کی مادی علامتوں کی دشمن ہے ، داعش نے قدیم رومن آرک آف ٹرمف کیا گرایا کہ ایک آہ و پکار مچ گئی ہے
رابرٹ فسک کو اس ” واویلا ” پر ، اس چیخ و چنگھاڑ پر اس لعن طعن پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وہ یہ سوال کرتا ہے جو بربریت ، وحشتناکی ، انتقام داعش سے صادر ہو اس کی مذمت کرنے والے اسی قسم کی بربریت ، وحشت ناک اقدامات کے ” سعودی عرب ” کی طرف سے صدور پر گونگے ، بہرے ، اندھے کیوں بن جاتے ہیں اور وہ یہ بتانا کیوں بھول جاتے ہیں کہ داعش کی بربریت کا ورثہ اصل میں سعودی عرب کی بربریت سے جڑا ہوا ہے لیکن کوئی اس رشتہ پر بات نہیں کرتا ، رابرٹ فسک لکھتا ہے
مڈل ایسٹ میں دھماکہ خیز مواد سے تاريخی قدیم عمارتوں کو اڑا کر ریزہ ریزہ کردیا جاتا ہے – بلڈوزروں سے قدیم مقبرے ، مزارات کو زمین بوس کردیا جاتا ہے اور عثمانی ورثہ تاريخ کو جزیرۃ العرب میں حرف غلط کی طرح مٹادیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ ایک مذہب کی انتہائی محترم و مکرم و مقدس ہستی کی پہلی اور سب سے محبوب بیوی کے گھر کو بیت الخلا میں بدل دیا جاتا ہے لیکن دنیا ( انکل سام لبرل ورلڈ ) اس پر اندھی ، گونگی ، بہری بنی رہتی ہے تو کیسے اس تباہی کو ، بربریت کو روکا جاسکتا ہے جو داعش بپا کئے ہوئے
رابرٹ فسک اس سے آگے نام لینے سے گھبراتا نہیں شرماتا نہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے
جی ہاں ! میں ان {نام نہاد ، خود ساختہ } بت شکن وہابی سلفی مسلمانوں جو سروں کو اڑانے کے بہت شوقین ہیں آل سعود کی بات کررہا ہوں
جانتا ہوں کہ یہ دنیائے انکل سام لبرل نے اس پر کچھ نہیں کرنا ، یہ داعش کی جانب سے پامیرا ميں قدیم یونانی آثار کو اڑانے پر چیخے چلائے گی ، طیش میں آکر تاؤ کھائے گی اور داعش کو لعن طعن کرے گی لیکن سعودی عرب جب پیغمبر اسلام ، ان کے قریبی رشتہ داروں اور اصحاب کی قدیم قبروں ، مزارات اور عمارتوں کو گراتی ہے تو اس میں اتنی جرات نہیں کہ سعودی عرب کے خلاف احتجاج کرے چاہے وہ بھیگی بلّی کی طرح ہی کیوں نہ ہو بلکہ یہ تو اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی
رابرٹ فسک اس سے آگے وہ راز کھولتا ہے جسے بہت کم مہان جغادری صحافی کھول پاتے ہیں کہ سعودی عرب پر تنقید نہ کرنے کی جرات سے محرومی بلکہ اس کا خوات تک نہ دیکھنے کا سبب یہ نہیں ہے کہ دنیائے انکل سام لبرل کے ہاں ” رومن ایمپائر ” کے آثار اسلامی ایمپائر کے آثار سے زیادہ قابل قدر ہیں اور وہ کسی نسل پرستانہ جذبے کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں بلکہ ہم سعودی عرب کی جانب سے مسلمانوں کے مقدس ، تاریخی مقامات و آثار کی تباہی پر اس لئے خاموش رہتے ہیں ، اس کو نظر انداز کرتے ہیں اور تنقید سے سعودی عرب کی ” دولت ” کی وجہ سے گریزاں ہیں ، ہمیں ان کی دولت شرمناک حدتک خاموش کرڈالتی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ اس معاملے پر کوئی تنقید نہیں سامنے آئے گی یہاں تک کہ ایک ہلکی سی سرگوشی بھی کسی کے لبوں سے نکلے گی کہ جو داعش کی بربریت کو سعودی عرب کی بربریت سے جوڑ ڈالے جو اسی وہابی سلفی عقیدے کی پیروکار ہے جو آل سعود کے بزرگوں نے 270 سال پہلے قبول کیا
آرک آف ٹرمف جسے داعش نے دو دن پہلے اڑا دیا ، وہی آرک آف ٹرمف جسے رومی شنہشاہ آرلیس کی 1800 سال قبل یونانی شہزادی زینبویا پر فتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا مغرب میں انکل سام کے ہاتھوں پر بیعت کرنے والہ فرقہ لبرلیان و سیکولریان کے ہاں صف ماتم بچھی پڑی ہے اور یہ وہی فرقہ ہے جو کل تک کہتا تھا کہ شامی فوج روسی فضائیہ کے کور کے ساتھ پامیرا شہر پر قابض ہوئی ہے تو ڈر ہے کہ کہیں وہ ” آرک آف ٹرمف ” کو تباہ نہ کردے مگر ہوا کیا ، اس کے بالکل الٹ – رابرٹ فسک کہتا ہے کہ
پامیرا شہر کے قدیم رومن تاریخی آثار کو ملبے میں بدلا جانا ، یو این کے ںزدیک جنگی جرم ہے لیکن جب داعش کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں حامی اور چندہ کاروں کا ملک جزیرۃ العرب کی اسلامی تاريخ کا صفایا کرتا ہے ، مکّہ کے 90 فیصد تاريخی مقامات کو زمین بوس کردیتا ہے تو ہم اس بڑے پیمانے کی وحشتناک بربریت پر اتنی توجہ بھی صرف نہیں کرتے جتنی ہم کو – کیری چرچ کی کھڑکی کو نقصان پہنچ جانے پر کرتے ہیں
زرا ایک نظر ڈالو سعودی عرب پر ، دیکھو وہاں کیا ہوا ، پہلے جہاں 570ء میں پغمبر اسلام پیدا ہوئے تھے مکّہ میں اس مولد نبوی کے آثار کو گراکر ایک لائبریری میں بدلا گیا اور اب اس جگہ ایک دیوقامت عمارت کھڑی کی جارہی ہے ، مسجد بلال جس کی تاريخ خدیجہ کے مکان جتنی پرانی ہے اس کو بھی بلڈوزر سے گرادیا گیا ، اور آپ کی محبوب ترین بیوی خدیجۃ الکبری کے گھر کو گراکر اس پر ” ٹوائلٹ ” بنادئے گئے ، آپ کے سسر اور خلیفہ اول ابوبکر صدیق کے گھر کو گراکر مکّہ ہلٹن ہوٹل تعمیر کردیا گیا ، سعودی عرب میں سینکڑوں ‏عثمانی طرز تعمیر کے نمونے والے مکانات ڈھائے گئے اور مسجد الحرام کے اندر عثمانی فن تعمیر کو ” توسیع الحرمین ” کے نام پر حرف غلط کی طرح مٹادیا گیا ، مسجد فاطمہ اور چاروں خلفاء کی تعمیر کردہ مساجد کو گرادیا گیا
لبنانی پروفیسر کمال صالبی نے 1985ء ميں جب اپنی ایک کتاب میں یہ تحقیق شایع کی کہ سعودی عرب کے بہت سے گاؤں کے نام بائبلی جیوش مقامات کے نام پر ہیں تو سعودی عرب کی حکومت نے بلڈوزر بھیج کر ان گاؤں کو مسمار کرنے بھیج دیا
داعش تاريخ کو جس طرح سے مٹارہی ہے یہ سعودی عرب کی تاريخ کے مادی آثار ختم کرنے کی مہم سے براہ راست تعلق رکھتی ہے
اٹھاروین صدی میں سعودی قبآئل نے محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات سے متاثر ہوکر وہابی سلفی اسلام قبول کرلیا اور اس کا تصور یہ تھا کہ اسلام کی خالص شکل کا احیاء اسی صورت ہوسکتا ہے جب ان تمام تاریخی آثار کو مٹاڈالا جائے جن سے ” شرک ” کا خطرہ ہے
عبدالعزیز ابن سعود 1920ء میں مکّہ آیا تو اس نے سب سے پہلے وہ قبرستان زمین بوس کیا جس میں پیغبمر اسلام کی بیوی حضرت خدیجۃ الکبری ، آپ کے چچا ابو طالب کی قبور تھیں ، پھر جنت البقیع کی باری آئی ، جہآں پر آپ کی سب سے پیاری بیٹی جناب فاطمۃ الذھرا ، جناب امام حسن سمیت دیگر اہل بیت اطہار ، امہات المومنین ، اصحاب رسول ، تابعین و تبع تابعین کی قبور موجود تھیں
سعودی عرب نے اصل میں وہ بربریت شروع کی جو بعد میں جنوب مغربی ایشیا میں قبرستانوں ، مقابر ، مزارات اور تاریخی عمارتوں کی تباہی و مسماری تک پھیل گئی -اور یہ سلسلہ مزارات سے بامیان میں بدھا کےمجسموں تک ، قدیم ٹمبکٹو لائبریری سے مکہ کے آثار قدیمہ کی تباہی تک ، موصل کے چرچ سے لیکر پامیر کی تباہی تک اور یہاں تک کہ بوسینیا میں قدیم خوبصورت مسجد کے سعودی فنڈڈ عجیب الخلقت عمارت میں بدلنے تک جو آج سارے بلقان میں ظاہر ہورہی ہیں تک چلاگیا
رابرٹ فسک کہتا ہے کہ
تاریخ سے نفرت وہابی سلفی عقیدے کا لازمی جزو اور حصّہ ہے جس میں ماضی ایک غیر مرئی روحانی حثیت سے ہوتا ہے اور اس کا جو مادی حصّہ ہے وہ ناقص اور مشرکانہ ہے
ایسا نہیں ہے کہ سعودی عرب کی تاریخ کی خود ساختہ تباہی کا کسی کو پتہ نہیں ہے – دی انڈی پینڈنٹ پہلا مغربی اخبار ہے جس نے داعش سے پہلے اس کو خوب مشتہر کردیا تھا
سعودی ریاست کے وکیل انکل سام لبرل کیمپ کے مکین ہمیں سعودی بربریت اور داعش بربریت کے درمین تعلق کبھی نہیں بتائیں گے لیکن اگر ہم اس سوال کا احتیاط سے بغور جائزہ لیں کہ
داعش کیا کرتی ہے اور کس چیز کی نمائندگی کرتی ہے ؟ تو ہمیں داعش کی ڈراؤنی اور مذھبی عادات کا مطالعہ کرنا ہوگا اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا چیز ہے جو القائدہ ، داعش اور طالبان کو اس بادشاہ سے جوڑتی ہے جو خود کو ” خادمین الحرمین شریفین ” کہلاتا ہے
رابرٹ فسک نے داعش ، القائدہ اور طالبان کو براہ راست سعودی بادشاہت کے ماضی اور حال کے کردار سے نتھی کیا ہے اور یہ وہ سچ ہے جو ” امریکی انکل سام حلقہ لبرلیان و سیکولریان ” کے منہ سے کبھی نکل نہیں سکتا اور وہ اس پر کبھی انکل سام اور اس کے اتحادیوں کو کٹہرے میں کھڑا کربھی نہیں سکتے
یادش بخیر ہندوستانی ادیبوں میں ہندؤ فاشزم اور نریندر مودی کی مذھبی جنونیت و فرقہ پرست پالیسیوں کے خلاف احتجاج ترقی کرتا جارہا ہے اور اب ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڑ کے بعد پدم شری ایوارڑ کی واپسی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ، ہندوستانی ادیبوں کی یا جاگرتا پاکستانی ادیبوں کو بھی جگانے کا سبب بنے گی یا نہیں ؟ یہ سوال ہنوز سوال ہے

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: