اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیل کا نتیجہ ڈھیل||ملک سراج احمد

فی الوقت تو آسان ہدف حکومت بنی ہے۔تحریک لبیک پاکستان کے ورکرز نے چند گھنٹوں میں ملک کو جام کرکے رکھ دیا ایک لمحے کو توگمان ہواکہ حکومت نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں ہے

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیل کا نتیجہ ڈھیل
ملک کی سیاسی صورتحال کنٹرول ہونا شروع ہوگئی ہے۔اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے گزشتہ چھ ماہ سے حکومت کے خلاف جو تحریک شروع کی تھی جب اپنے نقطہ عروج پر پہنچنے لگی تو اس میں پھوٹ پڑگئی۔حکومت نہیں بلکہ ملکی نظام کو بدلنے کی باتیں کرنے والے اتحاد سے عوام کی توقعات ابتدا میں بہت کم تھیں مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ عوامی توقعات بھی بڑھنے لگیں۔مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام نے پی ڈی ایم کی باتوں پر کان دھرنا شروع کردئیے۔پی ڈی ایم کا فیصلہ ہوا کہ ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جائے اور اس کے بعد ملک کے چاروں صوبوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات تبدیلی سرکار کے لیے ڈراونا خواب ثابت ہوئے ۔پے در پے شکست نے حکومت کی عوامی مقبولیت کا راز فاش کردیا۔ضمنی انتخابات کی کامیابی کا کریڈٹ پی ڈی ایم کو بھی جاتا ہے مگر اس کا اصل کریڈٹ عوام کو جاتاہے جنہوں نے حکومتی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کاسٹ کیئے ۔بات جب حکومتی کارکردگی کی تھی تو نتیجہ بھی حسب توقع آیا۔
تاہم اس دوران پی ڈی ایم میں اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملہ پر پھوٹ پڑ گئی۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگ گئیں ۔بجائے اس کے کہ اس معاملہ کو پی ڈی ایم کے اجلاس میں طے کیا جاتا فریقین نے میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی شروع کردی۔تلخی کے ساتھ ساتھ دوریاں بھی بڑھنے لگیں۔نتیجہ یہ کہ اے این پی اور پی پی پی جیسی اہم سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم سے عملی طورپر باہر ہوگئیں ۔مولانا فضل الرحمن نے حالیہ انٹرویو میں دونوں سیاسی جماعتوں کو پی ڈی ایم میں واپسی کی دعوت دیتے ہوئے فریقین کو بیان بازی سے منع کیا ہے مگر لگتا یہی ہے کہ یہ دعوت دینے میں کافی دیر ہوچکی ہے اور تلخیاں اور بدگمانیاں عروج کو پہنچ چکی ہیں پہلے تو یہ اتحاد ممکن نہیں رہا اور اگرہوبھی گیا توبہرحال پہلے جیسی بات نہیں رہے گی۔اور لگتا یہ ہے کہ مولانا کو احساس ہوگیاہے کہ اگر پی ڈی ایم ٹوٹ گی تو اس کے اثرات اپوزیشن جماعتوں کے لیے تباہ کن ہوں گے۔
اسی دوران حمزہ شہباز کی خاموشی نے رنگ دکھایا اور مریم نواز بھی آہستہ آہستہ خاموش ہوگئیں اور اسی خاموشی کے ساتھ شہبازشریف کی بھی ضمانت ہوگئی۔اب وقت آگیا ہے کہ شہباز کرے گا پرواز مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ پرواز صیاد کی منشا کے مطابق ہوگی یا شہباز اپنی مرضی کی اڑان لے گا اس کا فیصلہ تو آنے والے کچھ دنوں میں ہوجائے گا۔ تاہم ایک سوال اب ضرورپیدا ہوگیا ہے کہ کیا شہبازشریف اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں ہیں ۔کیا شہبازشریف مستقبل میں نوازشریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو لے کرچلیں گے۔کیا شہبازشریف مریم نوازشریف کی اسلام آباد میں دھرنے کی خواہش کو پورا کریں گے ۔ان سوالات کا جواب تو آئندہ کچھ مدت میں سامنے آئے گا جبکہ میرے اندازے کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہوگا۔خادم اعلیٰ کسی ایڈونچر نہیں بلکہ خدمت کے مشنری جذبے سے سرشار باہر آئے ہیں۔ خدمت کی اس ڈیل کے نتیجے میں تو ڈھیل دی گئی ہے۔
ویسے ایک قیاس یہ بھی تو کیا جاسکتا ہے کہ مریم نواز اپنے منصوبے میں کامیاب رہی ہیں انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مل کر حکومت کو مسلسل دباو میں رکھا تاکہ اسٹیبلشمنٹ شہبازشریف کے ساتھ معاملات کو حل کرئے اور ایسا ہی ہوا۔نتیجے کے طورپر شہباز شریف جیل سے باہر ہیں اور اب ڈرائیونگ سیٹ پر وہ خود موجود ہیں۔دیکھنایہ ہے کہ اپنے خاندان اور پارٹی کے لیے کتنی سہولیات حاصل کرپاتے ہیں۔لازمی بات ہے کہ پنجاب کے ممکنہ بلدیاتی انتخابات اورمردم شماری پر بھی شہباز شریف کی توجہ ہوگی۔اور پی ڈی ایم کو بھی ساتھ لے کرچلنا ہے۔اگر کسی ممکنہ ڈیل کے تحت شہبازشریف نے بھی لانگ مارچ، استعفوں اور دھرنے سے اجتناب کیاتو پھر پی ڈی ایم اور خاص طورپر مولانا فضل الرحمن کا مستقبل کیا ہوگا۔شاید اسی مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا نے پی پی پی اور اے این پی کو پی ڈی ایم میں آنے کی دعوت دی ہے۔
فی الوقت تو آسان ہدف حکومت بنی ہے۔تحریک لبیک پاکستان کے ورکرز نے چند گھنٹوں میں ملک کو جام کرکے رکھ دیا ایک لمحے کو توگمان ہواکہ حکومت نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں ہے۔ایک ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کی جو تصویر دنیا نے دیکھی ہے اس پر بہرحال کئی سوال کھڑے ہوں گے۔سڑکوں پر تشدد کے واقعات کی تصاویر اورویڈیوز ایک مدت تک ہمارا پیچھا کریں گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے متفقہ ریاستی بیانیہ تشکیل دے۔ایک ایسا بیانیہ جس میں سزاوجزا ریاست کی زمہ داری ہو کسی سیاسی جماعت یا گروہ کو سزاجزا کے معاملات ہاتھ میں لینے کی اجازت نا ہو۔معتدل معاشرے کے قیام کے لیے ریاست کو آج نہیں تو کل اپنی زمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی اور معاشرے میں کسی بھی سطح پر موجود شدت پسندی چاہے وہ مذہبی ہو یا لسانی ہو یا پھر سیاسی ہوکو سختی کے ساتھ ختم کرنا ہوگا۔
ریاست کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ شدت پسندی کے ساتھ نا تو ڈیل ہوتی ہے اور نا ہی ان کو ڈھیل دی جاتی ہے۔کسی بھی ڈیل کے نتیجے میں ڈھیل کا مطلب اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔لہذا شدت پسندی کاجتنا جلدی خاتمہ ہوجاے اتنا ہی اچھی بات ہے
تحریر: ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

%d bloggers like this: