اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دریائے سندھ کا بحری بیڑہ!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں بہاولپور میوزیم میں قومی نوادرات کی نمائش تھی، میوزیم کے ڈائریکٹر محمد زبیر ربانی نے مجھے بتایا کہ میوزیم میں کروڑ روپے مالیت کے نوادرات موجود ہیں اور سابق ریاست بہاولپور کی عظمت رفتہ کی پوری تاریخ یہاں موجود ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ دریائے سندھ کا بحری بیڑہ انڈس کوئین جو کہ نواب صاحب نے تیار کرایا تھا وہ بھی بہاولپور میوزیم میں لایا جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں بات بھی ہو چکی تھی مگر دریائے سندھ میں انڈس کوئین کا ڈھانچہ جہاں باقی ہے وہاں کے لوگوں نے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ میں نے بتایا کہ انڈس کوئین کو محفوظ ہونا چاہئے ۔ ’’انڈس کوئن‘‘ 19 ویں صدی میں تیار ہوا جسے سرائیکی ریاست بہاولپور کا ایک لاجواب اور خوبصورت تحفہ کہا جاتا تھا ۔ ضلع راجن پور کے شہر کوٹ مٹھن سے اگر چاچڑاں شریف ( خانپور ) کی جانب جائیں تو بے نظیر بریج پر چڑھنے سے پہلے دائیں ہاتھ پر ایک کچا راستہ مڑتا ہے، جہاں دریا پار کرنے کیلئے ایک عارضی پل قائم تھا ،اس پل کے نزدیک حفاظتی بند کے ساتھ ایک حیران کن منظر آپ کو اپنی طرف متوجہ کرے گا ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے یہاں ماضی میں کوئی بڑی جنگ لڑی گئی ہو اور دشمن اپنے جہاز چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو ۔یہاں آپ کو لہلہاتے اور سرسبز کھیتوں کے کنارے کیچڑ میں دھنسا ہوا ایک دیو ہیکل لوہے کا بحری جہاز نما ڈھانچہ نظر آئے گا، یہ انڈس کوئین ہے۔ قابل فخر سر زمین سابقہ ریاست بہاولپور کا ستلج کوئین ،جس سے کچھ دور ایک سٹیمر اور دو کشتیاں بھی نظر آتی ہیں۔ بر صغیر میں جب برٹش راج قائم ہوا تو سندھ سے پنجاب تک پختہ سڑک اور ریلوے لائن نہ ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے سامان و اجناس کی نقل و حمل کیلئے دریائے سندھ میں دخانی جہاز متعارف کرائے ۔ د سب سے بڑا راستہ تو سمندر ہے مگر ہمارے دریا بھی آبی گزرگاہ کے طور پر کام دیتے ہیں ۔ کراچی سے سامان حیدر آباد گدو بندر بھجوایا جاتا ، جہاں سے اس سامان جہازوں میں لاد کر پنجاب اور لاہور تک پہنچایا جاتا ۔ بار برادری میں ریل سے بھی کام لیا جاتا ہے ۔ ریلوے لائن بچھانے کے بعد پہلا ریلوے انجن بھی کراچی سے حیدر آباد اور وہاں سے انڈس فلو ٹیلا شپ کے ذریعے لاہور پہنچایا گیا تھا۔ یہ دریائی سفر سست اور لمبا سفر تھا ۔کراچی بندرگاہ سے یہ سٹیم انجن پہلے درہائے سندھ کے مغرب میں واقع شہر کوٹری لیجایا گیا اور وہاں سے انڈس فلوٹیلا کمپنی کی کشتی پر منتقل کیا گیا جس نے اسے لاہور پہنچانا تھا۔ دریائے سندھ اور دریائے چناب سے ہوتے ہوئے یہ کشتی 34 ویں دن ملتان پہنچی ۔ ملتان سے لاہور تک کا سفر کچھ جلدی طے ہو گیا اور بالآخر وہ دن آ گیا جس کا لاہور کے باسیوں کو شدت سے انتظار تھا ،کشتی دریائے راوی کی لہروں پر سوار لاہور میں داخل ہوئی ، لاہور میں دریائے راوی کے کنارے پر کشتی سے اس ریلوے انجن کو اتارا گیا اور اسے چوبرجی کے مقام پر لایا گیا جہاں معززین شہر اور عوام کی بڑی تعداد جمع تھی ۔ لاہور میں یہ انجن بیل گاڑیوں کی مدد سے گھسیٹ کر ریلوے اسٹیشن پر پہنچایا گیا ، لگ بھگ اسی دورمیں دریائے سندھ کے بڑے معاون دریائے ستلج میں بھی ایک عظیم الجثہ بحری جہاز کا راج تھا ،یہ ریاست بہاولپور کے نواب کا ستلج کوئین تھا یعنی دریائے سندھ کی ملکہ ۔ میں نے اوپر انڈس کوئین کو ستلج کوئین بھی کہا یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دریائے سندھ کی شہزادی کا نام پہلے دریائے ستلج کی ملکہ تھا۔ آج ہمارے دریائے ستلج کو بیچ دیا گیا ہے ، آج دریائے ستلج کی جگہ ایک اور صحرا اور ایک اور چولستان وجود میں آ رہا ہے ۔ یہ المیہ ، یہ ستم اور یہ کہانی الگ ہے لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ستلج کوئین نواب آف بہاولپور نواب صادق خان عباسی پنجم کی ملکیت تھا جسے لگ بھگ 1867ء میں بنایا گیا ۔ ریاست بہاولپور کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد نواب صادق خان عباسی نے پانی سے چلنے والا جہاز ’’ستلج کوئین ‘‘ حکومت پاکستان کو دے دیا ۔ ستلج کوئین کو حکومت پاکستان نے ’’ غازی گھاٹ‘‘ پر منتقل کیا گیا اور ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے بیچ دریائے سندھ میں چلانا شروع کر دیا ۔ سندھو میں آنے کے بعد یہ ستلج سے ’’ انڈس کوئین ‘‘ ہو گیا۔ غازی گھاٹ کے مقام پر پانی کے تیز بہاؤ کے پیش نظر انڈس کوئین کو 1996 ء میں کوٹ مٹھن منتقل کر دیا گیا جہاں یہ مٹھن کوٹ سے چاچڑاں کے درمیان پوری شان و شوکت سے چلتا رہا حتیٰ کہ 1996ء میں ہائی وے ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی عدم توجہی کا شکار ہو کر چلنے کے قابل نہ رہا اور تب سے لیکر اب تک دریائے سندھ کے کنارے سے بھی دور میدان میں پڑا ہے مگراس کا سب کچھ نکال لیا گیا ۔ اس جہاز نے اپنا آخری سفر 1996ء میں کیا ،ا س جہاز کے تین حصے تھے ، نیچے والے حصے میں انجن، جنریٹر اور اوپر ملازمین کے کمرے تھے۔ درمیانی حصہ مسافروں کے بیٹھنے کیلئے تھا ، ایک حصہ عورتوں اور ایک مردوں کیلئے مختص تھا ،درمیانی حصہ کے اوپر لوہے کی چادر کا شیڈبنا ہوا تھا اور شیڈ کے اوپر سب سے اوپر والے حصے میں مسافروں کیلئے ایک چھوٹی سی مسجد اور سامنے والے حصے میں کپتان کا کمرہ بنایا گیا تھا جس میں جہاز کو چلانے والی چرخی لگی ہوئی تھی جو جہاز کی سمت کا تعین کرنے میں استعمال ہوتی تھی ۔ تین منزلہ اس جہاز میں ایک ریستوران بھی تھا جس سے بیک وقت 400 مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا ۔ قریباً قریباً پچاس سال پہلے اس جہاز میں آگ لگنے کی وجہ سے یہ سہولت ختم کر دی گئی،اس طرح یہ قومی ورثہ تباہی کے کنارے لگ گیا۔

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: