اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رفعت عباس اور نمک کا جیون گھر||ڈاکٹر انوار احمد

"انتظار حسین کا کربلا سے کیا رشتہ ہونا ہے وہ تو کربلا ساتھ لیے پھرتے ہیں، کربلا کو زور سے پکڑ کر رکھا ہوا تھا چھوڑتے ہی نہیں تھے جب چاہتے برپا کرلیا کرتے تھے ۔ وہ دن رات ان کے ساتھ رہا کرتی تھی "

ڈاکٹر انوار احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رفعت عباس( جولائی 57) کی تخلیقی عمر کی کئی منزلیں میرے سامنے ہیں ، اس نے سرائیکی زبان کے رس ، رنگ اور مدہم
” الا” کو اپنے تخلیقی وجود میں جذب کیا ،اپنے محنت کش والدین اور ان جیسے عام آدمیوں کے دکھوں اور محرومیوں پر تلخ نوائی نہیں کی معاشرے کی اونچ نیچ کے نیش یا ڈنگ کو بڑی ریاضت سے نوش بنایا ۔بظاہر اس کی پہلی شناخت شاعر کی ہے مگر وہ منفردشاعر ہے جس نے مصوری ،موسیقی اور قصے کےاجزا کو شعری واردات بنایا اللہ میاں کو عام آدمی کا جاگیردار یا مخدوم نہیں دوست /رازدار بنایا اور تصوف کی روایت کو ایک نیا آہنگ دیا مظاہر فطرت سے ہم کلامی کے لئے شہر میں رہتے ہوئے، کالجوں میں پڑھاتے ہوئے شام کو دوستوں کو کافی پلاتے ہوئے بادیہ پیمائی اور دشت نوردی اختیار کی تجسس اور اشتیاق سے جنگل کے درختوں ،پودوں اور پرندوں کے ساتھ انہیں سینچنے والوں اور ان کی سرگوشیاں سننے والوں سے
” حال احوال ” کیا ۔ جس زمانے میں شبیر حسن اختر کو رفعت ملوہیہ جیسی منظوم تاریخ ملتان لکھنے کی تحریک دے رہا تھا وہ مرزا ابن حنیف کی سات دریاوں کی سرزمین میں مصنف کے موقف ، مقدس وید ( جس کے گیت تو غیر آریائی یعنی وادی سندھ اور ملتان کے شاعروں نے لکھا تھا ) برہمن کی چال بازی یا عوام دشمنی یا نسلی برتری پر آسمانی مہر لگانے کی آمریت زیر بحث آتی تھی پھر والمیک اپنی الوہی تخلیقی قوت کو جس طرح مقتدر قوتوں کی خوش نودی کے لئے انسانوں کو ہمیشہ کے لیے تقسیم کرنے والے عقیدے اور نام نہاد اسطور کی تشکیل میں صرف کر رہا تھا اس پر رفعت سنجیدہ سوال اٹھاتا تھا بہر طور اس کے سارے شعری مجموعے دیکھ لیجئے پھر مقامی آدمی کا موقف پڑھ لیجئے(مرتب منور آکاش) آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ ہومر یا فردوسی ہونے کا دعوی کئے بغیر اپنے خطے کی سیکولر ہیومینزم کا ماخذ سمجھنا چاہتا ہے اور جنگ یا رزم کی للکار بننے کی بجائے ہتھیار ، دیوتا ،جنگ اور موت یا فنا سے آزاد اس نمک گھر کی پانچ ہزار سال کی کتھا بیان کرنا چاہتا ہے اسے تکشلا کے عالم ، قواعد دان بھی لبھاتے ہیں مگر یہ بات جانتا ہے کہ خدا نے انسان تخلیق تو کر دیا مگر انسانوں میں سے تخلیق کاروں نے اپنے تخیل اور نقل کرنے یا ناٹک بنانے والوں نے انسانی رشتوں کو جذبوں کو اور محسوسات کو گہرائی دی ۔ آسمانی کتابوں اور قصوں کے مقابل ایک شاعر ایسا بیانیہ بنا لے جس پر کسی خطے کے بسنے والے یقین نہیں تو اعتبار ہی کر لیں اتنا آسان کام نہیں میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کے ناول میں سے اسکے تخلیقی یا نیم الہامی فقروں کی مثال دیتا جاوں مگر کتنے دے سکوں گا بس تین چار دیکھیں :
نسرا ہمیشہ سے سارنگ کی بیٹی ،سدھارن کی بیوی،درشا کی ماں اور لونڑکا کی محبوبہ تھی
لونڑی کے ناٹک کاروں نے موت کے مقابل زندگی کا منڈل قائم کر دیا تھا
عرب لونڑی پر تسلط چاہتے تھے لیکن لونڑی میں کوئی حاکم تھا نہ اس کا لشکر
وادی سندھ زندگی کی چھ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے خود زندگی بن گئی یہ چھ سیڑھیاں پتھر کی ڈھوائی،چھنٹوائی،پھوڑوائی، گھسوائی،اجلوائی اور بندھوائی تھیں
ملتان سورج کا آبائی شہر ہے
یہ ناول سرائیکی میں لکھا گیا پھر اسے منور آکاش نے بڑی مہارت اور ریاضت سے اسے ترجمہ کیا ۔
جب ناول کے اختتام پر اس نے تمثیل کا پردہ اٹھایا اور ساٹھ برس پہلے کا ملتان کینٹ حیرت انگیز مصوری کی صلاحیت سے پیش ہوا تو میں نے بے اختیار اصغر ندیم سید کو فون کیا کہ میں ملتان کے بارے میں ایک عظیم ترین ناول پڑھ رہا ہوں اس نے کہا مجھے کیوں بتا رہے ہو فلاں ناول نگار کو بتاو
منور آکاش میں اس ناول کے آخر میں چار صفحے محنت اور محبت سے لکھے اور بتایا کہ نمک کی کیا معنویت ہے اور یہ نمک گھر کیوں ہوا
اسے فکشن ہاوس لاہور نے شائع کیا ہے
یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: