اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزاد کشمیر الیکشن اور اندرون سندھ والی پیپلزپارٹی||حیدر جاوید سید

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے گیارہویں انتخابات کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف 26، پیپلزپارٹی 11، مسلم لیگ (ن) 6، مسلم کانفرنس ایک اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی نے بھی ایک نشست حاصل کی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے گیارہویں انتخابات کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف 26، پیپلزپارٹی 11، مسلم لیگ (ن) 6، مسلم کانفرنس ایک اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی نے بھی ایک نشست حاصل کی۔
مذہبی جماعتیں کوئی نشست نہ لے سکیں۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر دو نشستوں سے امیدوار تھے ایک نشست سے وہ ایک عام سیاسی کارکن سے ہار گئے دوسری نشست مشکل سے بچاپائے۔
سردار قیوم مرحوم کے صاحبزادے سردار عتیق کی مسلم کانفرنس کو بھی ایک ہی نشست ملی وہ بھی ان کی اپنی۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے بانی صدر مرحوم سردار ابراہیم خان کے خاندان کے حصہ میں بھی ایک ہی نشست آئی۔
پاکستان سے مہاجرین کی 12نشستوں میں سے 9 تحریک انصاف نے جیتیں کراچی کی نشست پیپلزپارٹی نے جبکہ پنجاب میں (ن) لیگ 2 سیٹیں لے سکی
انتخابی عمل پولنگ کے دوران ہوئے جھگڑوں میں دو افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔
پچھلے ایک ماہ سے جو تجزیہ نگار اور سروے کمپنیاں اندرون سندھ کی جماعت پیپلزپارٹی کوتیسرے نمبر کی پارٹی قرار دیتے تھے اور بعض کا دعویٰ تھا پی پی پی کے تو 45 میں سے صرف 8امیدوار ہیں انکے اندازے غلط اور حساب جعلی نکلا۔ اندرون سندھ کی علاقائی پیپلزپارٹی 11نشستیں لے کر دوسرے نمبر پر رہی۔ پیپلز پارٹی نے 10 نشستیں آزاد کشمیر سے اور ایک مہاجرین کی جیتی
الحمدللہ پولنگ اور گنتی کے عمل میں دھاندلی کی شکایات و الزامات جیتنے اور ہارنے والے حسب توفیق لگارہے ہیں۔
وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ لڑیں گے۔ یہ مقدمہ کہاں اور کیسے لڑنا ہے یہ بھی بتادیتے تو اچھا تھا۔
فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ
” انتخابی نتائج اس طے شدہ منصوبے کا حصہ ہیں جس پر بھارت نے 5اگست 2019ء کو عمل کیا تھا۔ آزاد کشمیر میں 25 جولائی 2021ء کو عمل ہوا۔ ان کے بقول 2ریفرنڈم والی بات اسی منصوبے کا ہی حصہ ہے”
لازم نہیں کہ آپ فقیر راحموں کی بات پر یقین کریں، دھیان دیں یا برا منائیں۔ دوسروں کی سنتے ہیں تو ان کی بھی برداشت کیجئے۔
2016ء میں پاکستان میں (ن) لیگ برسراقتدار تھی۔ قبل ازیں مسلم کانفرنس کے بطن سے (ن) لیگ برآمد کروائی جاچکی تھی۔ ان انتخابات میں (ن) لیگ فاتح ہوئی۔
اس سے قبل 2011ء میں پیپلزپارٹی جیتی تھی۔ تب اسلام آباد میں اقتدار پیپلزپارٹی کے پاس تھا۔ اب اسلام آباد میں اقتدار پی ٹی آئی کے پاس ہے نتیجہ گیارہ اور سولہ والا ہی ہے۔
کمپنی بہادر ہمیشہ یہ انتظام کرتی ہے کہ جس کے پاس اسلام آباد میں حکومت ہو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا اقتدار اسے ہی ملے۔ مہاجرین کی پنجاب والی نشستوں کا نتیجہ البتہ حیران کن ہے کیونکہ پنجاب اور قومی اسمبلی کے صوبہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتنخابات کے نتائج کے برعکس یہ نتیجہ ہے۔ مزید حیرانی اس لئے ہے کہ سنٹرل پنجاب کا کشمیری ووٹ جذباتی طور پر شریف خاندان کا ہمنوا ہے لیکن (ن) لیگ صرف راولپنڈی اور سیالکوٹ سے ایک ایک سیٹ لے پائی باقی نشستیں تحریک انصاف لے گئی اسی طرح لاہور اور گوجرانوالہ میں مہاجرین کی نشستیں بھی تحریک انصاف لے اڑی۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے انتخابی نتائج کو مستردکردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اعلان (یہ اعلان انہوں نے انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا) کے مطابق آزاد کشمیر سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کب شروع کرتی ہیں۔
انتخابی نتائج کو پیپلزپارٹی بھی مسترد کرچکی اور دیگر جماعتیں بھی۔ جماعت اسلامی جو کشمیری تحریک مزاحمت کی بڑی مالک ہونے کی دعویدار ہے دور دور تک کہیں دیکھائی نہیں دے رہی۔
مسلم کانفرنس کی عبرتناک شکست کے باوجود سردار عتیق خان اپنی نشست بچا گئے ان کے لئے یہی کافی ہے۔ انتخابی عمل کے آغاز کے ساتھ ہی کمپنی بہادر نے (ن) لیگ اور مسلم کانفرنس کے ہیوی ویٹ امیدواران کو حب الوطنی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے آمادہ کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت پر جس طرح راٗضی کیا وہ ’’اپنی مثال آپ ہے‘‘۔
(ن) لیگ کے حاضر سروس وزراء تک پارٹی ٹکٹ چھوڑ کر تحریک انصاف میں بھرتی ہوگئے بالکل ایسے جیسے پچھلے الیکشن میں یہ مسلم کانفرنس چھوڑ کر (ن) لیگ میں بھرتی ہوئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے زیادہ تر امیدوار اس کے دیرینہ کارکن اور رہنما ہی تھے مثلاً میاں عبدالوحید بازل نقوی، فیصل ممتاز راٹھور، لطیف اکبر اور دوسرے۔
وفاقی وزراء کا دعویٰ ہے کہ آزاد کشمیر میں
’’تحریک انصاف کی حکومت بننے سے بھارت کو بہت بڑا دھچکا لگے گا‘‘۔
یہ دعویٰ انہوں نے کس برتے پر کیا یہ وہی جانتے ہیں یا لالہ جی ۔ اس پر فقیر راحموں کا تبصرہ دلچسپ ہے لیکن رہنے دیجئے۔
پنجاب میں کشمیری مہاجرین کی نشست پر پولنگ کے دوران ہوئے ہنگاموں پر احتجاج کرنے والے لیگی کارکنوں کو علی پور چٹھہ میں عطا تارڑ سمیت گرفتار کرلیا گیا۔
گوجرانوالہ میں جس لیگی امیدوار نے انتخابی دھاندلی کے خلاف بھارت سے مدد مانگنے کی دھمکی دی تھی اسے (ن) لیگ نے شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے۔
(ن) لیگ نے جماعت اسلامی پر آزاد کشمیر میں جہادیوں کو استعمال کا الزام لگایا۔ ظاہر ہے ’’جہادی‘‘ خالی ہاتھ تو نہیں ہوتے اسی لئے سینیٹر مصدق ملک نے اسلحہ استعمال کرنے کا بھی الزام لگایا۔
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے الیکشن نتائج ہمیشہ متنازعہ ہی رہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ رائے دہندگان سے زیادہ کسی ’’اور‘‘ کے الیکشن ہوتے ہیں۔ خیر اگر یہ رائے دہندگان کے ووٹوں کا نتیجہ بھی ہیں تو جس تبدیلی کے مزے اہل پاکستان تین سال سے لے رہے ہیں آزاد کشمیر والے بھی لے لیں۔
انتخابی نتائج کے حوالے سے اب صبروشکر کے سوا اپوزیشن جماعتوں کے پاس اور کچھ بھی کرنے کو نہیں رہ گیا۔ انتخابی فہرستوں کے حوالے سے شکایات کا کشمیری الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اسی طرح آزاد کشمیر کی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں پاکستانی حکومت اور کمپنی بہادر کی مداخلت روکنے میں بھی ناکام رہا۔ حرف آخر یہ ہے کہ یہ الیکشن اندرون سندھ کی علاقائی جماعت پیپلزپارٹی کے لئے بڑا بریک تھرو ہیں کیونکہ اس کے 11امیدوار کامیاب ہوئے اور مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹوں میں بھی پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر ہےجبکہ نون لیگ دوسرے اور تحریک انصاف پہلے نمبر پر ماضی میں (ن) لیگ کی خوشنودی کے لئے پی ایف یو جے کو تقسیم کرنے پر کشمیر اسمبلی کارکن اور وزیر اطلاعات بننے والے صحافی مشتاق منہاس بھی اپنی نشست سے ہار گئے۔
ایک ستم ظریف نے ان کی شکست کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی کہ مشتاق منہاس اپنی درخواست ملازمت لے کر اسلام آباد کے لئے روانہ ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: