اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہاول پور میں ابھرتا نیا سیاسی منظر نامہ۔۔۔ ذیشان لطیف کمبوہ

اب ہم اگر بہاول پور کے موجودہ سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں تو ہمیں تمام بڑے بڑے سیاسی خانوادوں میں لیڈر شپ کا فقدان نظرآتا ہے۔
بہاول پور شہرکی بنیاد اٹھارویں صدی کے اوائل میں عباسی خاندان نے رکھی۔ خوش قسمتی سے یہ خطہ ارضی شروع دن سے ہی امن و آشتی کا گہوارہ رہا ہے حتیٰ کہ جب سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت پنجاب سے لے کر موجودہ خیبرپختونخواہ اور افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی تب بھی مہاراجہ کو یہ جرات نہ ہوئی کہ ستلج کے اس پار بری نظر ڈال سکے۔
ا ور جب انگریز کی حکومت پورے برصغیر میں قائم ہوچکی تھی تب بھی بہاول پور کے نوابین نے اپنی بہترین سفارتکاری اور سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس خطہ میں آزادی اور اسلامی نظام کی شمع جلائے رکھی۔ یہ اس بات کا  و اضح ثبوت ہے کہ اس خطہ کے حکمران کتنے دور اندیش اور سفارتی اور سیاسی میدان کے ماہر کھلاڑی رہے ہیں۔
اگر ہم صرف ضلع بہاول پور ہی کی بات کریں تو اس خطہ نے جتنے بڑے بڑے سیاستدانوں کو جنم دیا ہے اس پر تاریخ ابھی تک انگشت بہ دنداں ہے۔ ڈسٹرکٹ بہاول پور میں جو سیاستدان ماضی قریب میں سیاست کے افق پر جلوہ افروز رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مختلف سیاسی خانوادوں سے ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سیاست دان انتہائی تعلیم یافتہ، بالغ نظر اور مدبر ہونے کے ساتھ ساتھ جمہوریت پسند اور عوام دوست بھی تھے۔ یہ دھرتی جو ہزاروں برس پرانی ہاکڑہ تہذیب کی وارث ہے اس نے سیاست کے میدان میں بہت سے گہرِ نایاب متعارف کرائے۔
پرانے سکہ بند سیاسی خانوادوں میں یہاں کے سابقہ حکمران خاندان کے چشم و چراغ نواب صلاح الدین کا بہاول پور کی سیاست میں اپنا ایک علیحدہ مقام ہے۔ ان کی شخصیت میں بہاول پور کی تہذیبی، علمی و سماجی روایات مجسم شکل میں موجود ہیں۔ خانقاہ کے اویسی صاحبان بھی بہاول پور کی سیاست میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ خیرپور کی گردیزی فیملی جو بدقسمتی سے روبہ زوال ہے۔
سابق وفاقی وزیر میاں بلیغ الرحمن کا خاندان بھی پاکستان بننے سے قبل بھی اپنا سیاسی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ ایسے ہی طارق بشیر چیمہ بڑے قد کے سیاست دان ہیں اور ان کے والد قیام پاکستان کے بعد بہاول پور صوبہ کی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے ہیں۔
ریاض پیرزادہ کی سیاست 80ء کی دہائی میں پروان چڑھی مگر انہوں نے گردیزی خاندان جس کا علاقے میں طوطی بولتا تھا کو چت کر دیا۔ اسی طرح فاروق انور عباسی، فاروق اعظم ملک اور ملک اقبال چنڑ کی سیاست بھی بہاول پور میں قابل ذکر ہے۔ ان سیاسی خانواد وں سے ہٹ کر علامہ ارشد اور تابش الوری جیسے عظیم سیاست دان بھی بہاول پور کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ جن کا کسی سیاسی خانوادے سے تعلق نہ تھا مگر پھر بھی یہ دونوں سیاست دان پنجاب کی پارلیمانی سیاست کے افق پر کئی دہائیوں تک چمکتے رہے۔ ان دونوں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے ہیں۔
موجودہ سیلف میڈ سیاست دانوں میں سمیع اللہ چودھری قابل ذکر ہیں جنہوں نے قریب تین دہائیاں (ن) لیگ میں گزارنے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔مرحوم ڈاکٹر سید وسیم اختر کا شمار بھی سیلف میڈ سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔  مگر اب المیہ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی تناظر میں بہاول پور کے تمام قدیم سیاسی گھرانوں کے ماضی کے جاہ و جلال کو زمانے کا زنگ کھا گیا ہے۔ بقول ایک سیاسی دانشور کے یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ گھرانے وقت کی ڈھلوان پر اتنی تیزی سے لڑکھے ہیں کہ ان کی سیاسی کمر کے مہرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔
اب ہم اگر بہاول پور کے موجودہ سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں تو ہمیں تمام بڑے بڑے سیاسی خانوادوں میں لیڈر شپ کا فقدان نظرآتا ہے۔ آخر یہ خلا کون پُر کرے گا؟  کون اس وسیب کی آواز اقتدار کے بلند و بالا ایوانوں تک پہنچائے گا؟ کون اس پسماندہ علاقے کے مجبور اور بے کس عوام کی مسیحائی کرے گا؟
کسی سیانے نے ایک بہت خوبصورت بات کہی کہ جیسے پانی اگر ایک جگہ کھڑا ہو جائے اور اس میں نیا پانی شامل نہ ہو تو یہ پانی جوہڑ کی شکل اختیار کر لے گا اسی طرح بہاول پور کی سیاست کے میدان میں اگر نیا خون شامل نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ یہ بھی ایک جوہڑ کی شکل نہ اختیار کر لے۔
بہاول پور میں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے نئے سیاستدانوں میں ایک شخصیت محترمہ فرزانہ رؤف ہیں، بہت کم لوگ سیاست کے میدان میں طاقت اور اقتدار کی خواہش کے بجائے صرف مخلوقِ خدا کی خدمت کو مشن بنا کر آتے ہیں۔ بہاول پور کی ماضی قریب کی تاریخ میں صرف دو ہی ایسے سیاست دان نظر آتے ہیں جن کا مطمع نظر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اور بہاول پور کے غریب عوام کی داد رسی ہے۔ ایک تو مرحوم ڈاکٹر سید وسیم اختر جو چند ماہ پہلے اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے ہیں اور دوسری محترمہ فرزانہ رؤف۔
ایک دفعہ محترمہ سے ملاقات کے دوران میں نے سوال کیا کہ آپ کی سیاست کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ تو ان کے جواب نے مجھے ورطہئ حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ لوگ سیاست میں کیوں آتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ سیدھی سی بات ہے، عوام کی خدمت وغیرہ تو قصہئ پارینہ ہو چکی ہیں اب تو لوگوں کو مطمع نظر شہرت، طاقت اور حصولِ اقتدار کی خواہش ہوتی ہے۔ تو فرمانے لگی کہ اللہ پاک نے مجھے پہلے ہی ان سب چیزوں سے بہت زیادہ نواز رکھا ہے۔ آپ کے بہاول پور کا کون سا ایسا سیاست دان ہے جو جب چاہے گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعظم پاکستان یا صدرِ پاکستان سے مل سکتا ہے؟ تو میرا جواب نفی میں تھا کہ ایسا تو کوئی نہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ایم پی اے کا الیکشن جیت کر میں کوئی صوبائی وزارت حاصل کر لوں گی تو کسی بھی صوبائی وزیر سے اونچا سٹیٹس تو میں ابھی بھی انجوائے کر رہی ہوں۔
محترمہ کی یہ سب باتیں واقعی حقیقت تھیں تب انہوں نے بتایا کہ میرا سیاست میں آنے کا بنیادی مقصد اپنے حلقے کے عوام کی داد رسی، ان کو سیاسی قبضہ گروپوں سے نجات دلانا اور حلقے میں تھانہ کچہری اور ظلم و جبر کی سیاست کا خاتمہ ہے۔
بہاول پور ضلع میں آج تک کوئی خاتون عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بنی مگر لگتا ہے کہ محترمہ فرزانہ رؤف بہاول پور کی یہ تاریخ بدل کر رکھ دیں گی۔ انہوں نے اپنی صرف چند روزہ الیکشن کمپیئن میں تیرہ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس بات سے ان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ محترمہ فرزانہ رؤف کی سیاست کا انداز ایسا ہے کہ وہ لوگوں میں گھل مل جاتی ہیں اور ان کے مسائل حل کرنا ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق محترمہ آئندہ الیکشن میں اپنے سیاسی حریفوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوں گی۔ اور یہ بات بھی زبان  زدِ عام ہے کہ آئندہ الیکشن چاہے ضمنی، بلدیاتی یا جنرل الیکشن محترمہ فرزانہ رؤف طارق بشیر چیمہ جیسے بڑے قدرآ ور سیاست دان کو بھی چت کر سکتی ہیں۔ اگر ہم ان کے حلقے کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ وہاں دو بڑے سیاسی اتحاد بنتے رہے ہیں۔
ایک سابق سینیٹر سعود مجید کا گروپ اور دوسرا (ق)لیگ کے طارق بشیر چیمہ کا گروپ۔ یزمان میں پچھلے چند جنرل الیکشن کا ڈیٹا دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ وہاں ہمیشہ کانٹے دار مقا بلہ ہوتا ہے، سعود مجید اور چیمہ گروپ میں ہار جیت کا فرق صرف دو چار ہزار ووٹوں کا ہوتا ہے۔ اگر محترمہ صرف چند دن کی کمپیئن سے تیرہ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر سکتی ہیں تو اگر انہیں کمپیئن کا بھرپور موقع مل جاتا تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی۔ بہرحال یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ محترمہ اگر اپنا وزن دوسرے گروپ میں ڈال دیتی تو شاید چیمہ گروپ کے ہاتھ ایک سیٹ بھی نہ آتی۔
اس صورت حال نے یزمان کے بڑے بڑے جگادری سیاست دانوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ آنے والے بلدیاتی الیکشن ہوں یا جنرل الیکشن انہیں اپنی واضح شکست نوشتہ دیوار نظر آتی ہے۔

%d bloggers like this: