اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تصوف تنقیدکی زد میں کیوں آگیا ہے؟ ۔۔۔ محمود جان بابر

تصوف کے مطلب سے نابلد لوگوں نے حکومت کو طنز کا نشانہ بنانے کیلئے تصوف کی جوتعلیمی ڈگریاں متعارف کرائیں وہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں

آخری عام انتخابات کے بعد سے جب سے نئی حکومتیں بنی ہیں جب بھی کسی بحران نے سر اُٹھایا ہمیشہ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت کی بولی بولنے والوں نے وہ وہ شگوفے چھوڑے جنہیں سن کر لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگا لئے، ہرغلطی اور کمزور پالیسیوں کیلئے ایسے ایسے جواز گھڑے گئے کہ بیٹے نے باپ کو بخشوا دیا۔

کفن چوری کا واقعہ تو آپ سب کو یاد ہی ہوگا کہ بیٹے نے باپ کے بعد کفن چوری میں ایسے نئے طریقے ایجاد کئے کہ لوگوں کو کہنا ہی پڑا کہ باپ کو اللہ بخشے کم ازکم وہ بیٹے سے تو کئی درجے بہتر تھا۔ اپنے صوبے کی بات کریں تو حال ہی میں فائن آٹے، بی آرٹی اور دسویں پاس شخص کو وزیرتعلیم بنانے کیلئے جو منطقیں اور جواز گھڑے گئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کے لوگ غلطی کو ٹھیک کرنے سے زیادہ زور اس غلطی کو ٹھیک ثابت کرنے پر صرف کررہے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ کسی طریقے سے یہ ثابت کرسکیں کہ وہ ہی دراصل ایسے لوگ ہیں جو ٹھیک تو کیا غلط کو بھی ٹھیک بناکر ثابت کرسکتے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کی حکومت اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی بلکہ بہت سے وعدوں سے تو جان چھڑانے کا کام بھی قریباً مکمل کرچکی ہے، ایک ایسی صورتحال میں جب اس کے اپنے کارکنوں اور حمایتیوں کا اس پر سے اعتماد آہستہ آہستہ ڈانواں ڈول ہورہا ہے اور حکومتی جماعت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی عوام میں کم ہوتا اعتماد ہے ایسے میں توقع یہ کی جارہی تھی کہ حکومت لوگوں کو مزید ایسے کوئی مواقع نہیں دے گی کہ وہ خود مسلسل تنقید کی زد میں رہے۔

لیکن ایسا نہیں ہوا، حکومت مسلسل لوگوں کو اپنے سینے سے لگائے پتوں میں سے کچھ نہ کچھ بتا رہی ہے اور لوگ حکومت کی کرائی گئی آسان گیندوں پر وہ چھکے اور چوکے لگاتے ہیں کہ حکومت کے ہاتھوں کے طوطے مزید اُڑجاتے ہیں۔

تین دن پہلے وزیراعظم عمران خان نے ایک اجلاس کے دوران تصوف کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی ہدایت کی، اس کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ ہمارے ہاں تصوف کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی اور جو لوگ اس لفظ کی حقیقت سے ناآشنا ہیں وہ کتابوں اور انٹرنیٹ پر اس کے حوالے ڈھونڈ کر اپنے علم میں اضافہ کرتے کہ کیسے یہ علم عام ہوا اور کن کن ہستیوں کے ذریعے یہ نظام پوری دنیا میں پھیلا،

لیکن افسوس کہیں سے کوئی ایسے آثار نہ ملے بلکہ وہ جو حکومت کے ناقد تھے انہوں نے عام محافل اور خصوصاً سوشل میڈیا کی دیواروں کو اس نعمت کیخلاف بیانات سے رنگ دیا۔ جب سے وزیراعظم نے تصوف کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے اس کے بعد سے اس علم سے وابستہ لوگ بھی لرز رہے ہیں کہ بی آر ٹی کو پوری ”کامیابی” سے ناکام کرنے والی حکومت معلوم نہیں اس علم یا طرززندگی کا کیا حشر کرے گی۔

جس طرح حکومت نے ہر کام کو شروع کرنے کے بعد درمیان میں ہی یا تو ادھورا چھوڑا یا اس پر پشیمانی ظاہر کرکے واپسی کا راستہ اختیار کیا، اس کے تناظر میں تصوف سے وابستہ لوگ پریشان ہیں کہ وہ صنف جسے کن کن ہستیوں نے خون دل دیکر سینچا،

انہوں نے نہ تو اس کے راز آشکار کئے نہ ہی اس کے اصولوں کو چھیڑا ، جس چیز کی بنیاد ہی محبت پر بنی اور لبوں پر آئے بغیر یہ دلوں کے اندر ہی اندر پروان چڑھتی رہی، وزیراعظم اس کا یوں ذکر کرنے اور سربازار لانے سے حکومتی ناقدین کو تنقید کا موقع دے بیٹھے۔

تصوف کے مطلب سے نابلد لوگوں نے حکومت کو طنز کا نشانہ بنانے کیلئے تصوف کی جوتعلیمی ڈگریاں متعارف کرائیں وہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں،پی ایچ ڈی ملنگ سائیکالوجی، بی ایس دھمال، بی ایس جھولے لال، ایم بی اے دربار مینجمنٹ، ایم بی اے دربارفنانسنگ اورچندہ کلیکشن جیسے نام پڑچکے ہیںحالانکہ بڑے بڑے علما کرام نے اس عمل کو اپنی تحریروں کے ذریعے ہمیشہ اُجاگر کیا۔

معروف مذہبی سکالرچوہدری محمد اسلم سلیمی نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ تصوف تو دراصل خدا اوررسولۖ سے سچی محبت بلکہ عشق کا نام ہے اورشریعت کے احکام کوانتہائی خلوص اورنیک نیتی کیساتھ بجا لانے اور اللہ کی اطاعت میں اللہ کی محبت اوراس کے خوف کی روح بھر دینے کا نام تصوف ہے۔

وزیراعظم کے اعلان کیساتھ ہی سماجی رابطوں کی ان ویب سائٹس پرمعاملے کو سمجھے بغیر صرف بغض میں اس قسم کے عمل کو روا رکھنا کسی بھی طورجائز نہیں لیکن پھر بھی قصور اعلان کرنے والوں اور حکومتی فیصلوں کا دفاع کرنے کی کوشش کرنے والوں ہی کا ہے۔

حکومت کو بھی چاہئے ہوگا کہ وہ ایسے اعلان کرنے میں جلدبازی سے کام نہ لے اوران معاملات کو کسی منطقی انجام تک ضرور پہنچائے۔ اب جب سے یہ خبر منظرعام پرآئی ہے اس کے بعد سے تصوف سے وابستہ انسانیت کے بڑے محسنوں کو جانے بغیر لوگوں نے تصوف اور مزاروں پر نشہ کرنے والوں کو آپس میں ہم معنی سمجھ لیا ہے حالانکہ ایک حقیقی صوفی کی مثال بطخ جیسی ہے جس کے پیر تو پانی کے اندر چل رہے ہوتے ہیں لیکن اس کے پَر بھیگنے نہیں پاتے یہی کام صوفی کا ہوتا ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس کی رغبت سے بچا رہتا ہے۔

میاں محمد بخش کا بہت مشہور شعر ہے،

خاصاں دی گل عاماں اگے، نئیں مناسب کرنی

مٹھی کھیر پکا محمد، کتے اگے دھرنی

تصوف ایک ایسا روحانی عمل اختیار کرنے کا نام ہے جو ہر کسی کی سمجھ میں آنے والی بات نہیں، یہاں تک کہ ضروری نہیں کہ علماء اور فضلاء بھی اسے سمجھ سکیں۔ ایک ایسے عمل کو نصاب میں کیسے پڑھایا جائیگا اس سوال کا بہتر جواب وہی دے سکتے ہیں جنہوں نے تجویز دی ہے۔ اس کی مخالفت میں اپنی عاقبت خراب کرنے والوں کیلئے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔

%d bloggers like this: